Posts

Government of Pakistan offers dialogue with PTM

Image
Federal Minister for defence Parvaiz Khattak offered talks to PTM . While talking to media mr Parvaiz Khattak said that the government wants to start dialogue with PTM and settle thier issues amicably .  PTM leader Manzoor Pashteen welcomed this dialogue from the government however he said that he only believes on meaningful dialogue . He added that the government has to show seriousness regarding this talk . he further said that PTM has never refused from dialogue with the government however in the past the government on one side started dialogue on the same attacked on PTM peaceful Activists therefore the government has to ensure that it will not sobotage the dialogue by victimising the PTM leaders and workers. C onclusion ;  Let's see what happens we can't predict in advance as we can't believe on government of Pakistan because it has always betrayed its people . If the government is serious in resolving PTM issues then it already knows about PTM six demands . It should ...

پی ٹی ایم ختم ہونے کے لئے نہیں بنی ہے ۔ بلکہ ظالموں کو ختم کرنے کے لیے ہمیشہ کے لیے وجود میں آئی ہے

Image
کفر کے فتوے ، دھمکیاں اور پشتون تحفظ موومنٹ ؛  #تحریر : #سعیدانورداوڑ  اتوار کو جمیعت علمائے اسلام کے جنوبی وزیرستان محسود علاقہ کے چند مولیوں نے پشتونوں کے خون پسینے کی کمائی سے بنے ایک مسجد میں بیٹھ کر  مظلوم پشتونوں کے لئے آواز اٹھانے والے  پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف کفر کا فتویٰ جو ان کے پاس واحد ہتھیار ہے جاری کیا ہے ۔ اور ساتھ میں یہ دھمکی بھی کی ہے کہ ہم پی ٹی ایم کو ختم کریں گے ۔   دوستوں پہلی بات تو یہ ہے کہ اب وہ وقت گزر چکا ہے کہ ان مولویوں کے  فتووں پر قوم اشتعال میں آکر فتنہ و فساد برپا کرتی ۔ اب وقت بدل گیا ہے ۔ پشتون قوم میں بہت شعور آگیا ہے ۔ لوگ دین کے ساتھ ساتھ سیاست کو بھی اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ۔ ان کو معلوم ہے کہ کافر اور مسلمان کون ہے ۔ ظالم اور مظلوم کون ہیں ۔ اپنا اور پرایا کون ہے ۔ لہذا یہ کفر والا فتویٰ تم اپنی جیب میں رکھو ۔ یہ فتویٰ 21ویں صدی میں کام نہیں کرتا ۔ ہم نے نئی ھتیار 7ATA لگانے والوں کو قانونی شکست دی ۔ تمہارا فتویٰ تو پرانا ہتھیار ہے ۔ اس میں اتنی طاقت باقی نہیں ہے۔    قوم کو پتہ ہے کہ منظور پشتین تم سے ز...

پشتونوں اور بلوچوں کا ریاست پاکستان سے حقوق مانگنے کا طریقہ

تحریر سعید انور داوڑ  پاکستان کا دنیا میں سیاسی و معاشی مقام اور اس ملک سے پشتونوں اور بلوچوں کے حقوق مانگنے کا طریقہ  دوستوں ہر  ریاست کی یہ زمہ داری ہوتی ہیں کہ وہ لوگوں کے جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت اور روٹی کپڑا تعلیم و علاج کو یقینی بنائیں ۔ دنیا کی تمام مہذب ریاستیں اس زمہ داری کو احسن طریقے سے نبھا رہی ہے ۔ اور ریاست بنانے کا مقصد ہی یہی  ہوتا ہے ۔ چین ، جاپان ، ترکی ، ملائشیا ، امارات ، قطر ، آسٹریلیا ،یورپ اور امریکہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔  لیکن بدقسمتی سے ہم ایک ایسے ملک سے حقوق کی  بھیک مانگ رہے ہیں جو خود بھی بھکاری ہے ۔ بچپن سے لیکر آج تک ہم دیکھ رہے ہیں کہ پشتون اور بلوچ ہزاروں لاکھوں احتجاج ریکارڈ کر چکے ہیں ۔ کبھی ایک مسلے کو لیکر کبھی دوسرے کو لیکن مجال ہے کہ مسائل ختم ہوئے ہو بلکہ آئے روز مسائل میں اضافہ ہو رہا ہیں ۔ ان میں سے اکثر مسائل ایسے ہیں جو خود ریاست پاکستان کے پیدا کردہ ہیں ۔ مثلآ غریبوں پر ٹیکس ، مہنگائی ، چیک پوسٹوں پر لوگوں کو بےجا تنگ کرنا ، دہشتگردی ، راستے بند کرنا ، مارکیٹوں کو گرانا ، لوگوں کو لاپتہ کرنا ، لینڈ ما...

قبائلی نظام بمقابلہ جدید آئین و قانون کا مغاشرہ

تحریر سعید انور داوڑ  عنوان ؛ ٹرائبلزم بمقابلہ جدید آئین و قانون کا مغاشرہ   ٹرائبلزم ہم مزید ٹرائیبل نہیں ہیں ۔  پشتون ہیں۔ اور بس صرف پشتون ہیں ۔ ہم باقی تہذیب یافتہ اقوام کی طرح زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔ جہاں جدید دنیا کی مانند قانون و آئین کے مطابق بہتر زندگی ہو ۔  جدید ریاست کے اندر رہتے ہوئے عام عوام کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں ۔  ٹرائبلزم کو 73 سال آزمایا ۔ ان 73 سالوں میں ہم نے کوئی سیاسی ، معاشی اور سماجی ترقی نہیں کی ۔ ہم باقی دنیا سے 100 سال پیچھے رہ گئے ۔  مزید اس فرسودہ نظام سے نکلیں ۔ اور ماڈرن جمہوریت کو اپنائیں ۔ یہ سائنسی اور منطق کا دور ہے ۔ یہ پرانا نظام بری طرح ناکام ہوا ۔ اس نے ہمارے سماج کو مثبت نتائج نہیں دئیے ۔ اس ٹرائیبلزم میں ہمیشہ ایک خلا رہتا ہے جس کو  ملا ملٹری  اور ملٹنٹس پر کرکے عام عوام کو بےتحاشہ نقصان پہنچاتے ہیں ۔  ہم عام آدمی کو empower دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اور قبائلی نظام چند جاہل ان پڑھ انگوٹھا چاپ سرداروں اور ملک کو اختیارات دیتی ہیں ۔ ان ملکان و مشران نے کیا کیا گزشتہ 70 سالوں میں یہ ہم سب دیکھ چکے ہیں ...

فیسبک اور انقلاب

انقلاب میں فیسبک کا کردار ؛ تحریر سعید انور داوڑ اس موضوع میں دو لفظ ہیں ۔ ایک انقلاب اور دوسرا فیسبک کا کردار ۔ انقلاب کسے کہتے ہیں ۔ انقلاب ظالمانہ سامراجی نظام کے خاتمے اور اس کی جگہ مقامی لوگوں کی اپنی خودمختار انصاف اور مساوات پر مبنی حکومت کا قیام انقلاب کہلاتا ہے ۔ انقلابات کب آتے ہیں ۔ انقلابات  اس وقت آتے ہیں ۔ جس معاشرے میں ظلم و زیادتیاں ذیادہ ہوتی ہیں ۔ وہاں خود بخود انقلاب جنم لیتے ہیں ۔ یا جب سوسائٹی جمود کا شکار ہو جاتی ہے اور ان کی ترقی نہیں ہوتی تو پھر انقلاب ناگزیر ہوجاتا ہے  ۔ جب سامراج مقامی سوسائٹی پر ہر طرح سے ظلم کا انتہا کر دے ۔ ظلم کی محتلف قسمیں ہے ۔ جیسے ریاست پاکستان کی طرف سے لوگوں پر  معاشی ظلم مہنگائی کی صورت میں اور غریبوں پر ٹیکس کا بہت بڑا بوجھ ڈالنا یا مقامی لوگوں کے وسائل جیسے دریا ، ڈیم ، بجلی و پانی ، تیل و گیس ، اور معدنیات وغیرہ  پر قبضہ کرنا  ، اس طرح سیاسی استحصال جس میں مقامی لوگوں کو حق خودارادیت سے محروم کیا گیا  اور  ۔ اس کے بعد جسمانی ظلم یا نسل کشی جو پشتونوں کے ساتھ گزشتہ 20 سالوں ںسے ریاست کی طرف ...

نظریہ دوسرا حصہ

تحریر ؛ سعید انور داوڑ یہ ایک حقیقت ہے کہ نظریہ پیٹ سے نہیں بنتا بلکہ پہلے سے موجود نظریہ پر کام کرکے وقت کے تقاضوں کے تقاضوں کے  مطابق بنایا جاتا ہے ۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے نظریات ارتقائی مراحل سے گزر چکے ہیں اور پھر ہم تک پہنچے ہیں ۔  دوسرا یہ کہ نیا نظریہ ایک باطل نظریہ کے ضد میں وجود میں آتا ہے ۔ جیسا کہ اشتراکیت کا نظریہ سرمایہ دارانہ نظام کے ردعمل میں وجود میں آیا تھا ۔ پی ٹی ایم تو خود سامراجیت کے ردعمل میں ایک بنیادی نیشنلسٹ انقلابی نظریہ ہے ۔ دوسرا پی ٹی ایم جس نظریہ کے بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے وہ حق پر مبنی نظریہ ہے ۔ اب پی ٹی ایم کے ردعمل میں تو کوئی نظریہ بن نہیں سکتا اور اگر پی ٹی ایم کے خلاف کوئی نظریہ لائے گا تو وہ ایک باطل اور ظالم نظریہ ہوگا ۔ پہلے کالم میں عرض کیا تھا ۔ کہ پی ٹی ایم کوئی نیا نظریہ نہیں لیکر آئی ہے ۔ بلکہ یہ تسلسل ہے پشتون قوم کے ہر سامراج کے خلاف پشتون قوم کو غلامی ، جبر اور زوال سے نکالنے کیلئے ہر دور کے ہر  سامراج کے خلاف  فکر و عملی جدوجہد  کا ۔ اسی نظریے کے تحت خوشحال خان ، پیر روشان ، میرویس خان ، فقیر ایپی وغی...

نظریہ ہر روز نیا نہیں بنتا

تحریر؛ سعیداانور داوڑ کچھ محترم دوستوں کا خیال ہے کہ پشتون تحفظ مومنٹ کے لیے یا پشتون قوم کے لیے وہ کوئی نیا نظریہ بنا لیں گے  ۔ تین چیزوں میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے ۔ ١۔ نظریہ ٢۔ تنظیم ٣۔اہداف ۴۔ حکمت عملی یاد رہے ۔ تنظیم پہلے نہیں بنتا ۔ بلکہ تنظیم بننے سے پہلے ساتھی ایک نظریہ اپنا لیتے ہیں ۔ اور پھر اس نظریہ کی بنیاد پر ایک تنظیم تشکیل دی جاتی ہے ۔ یہ نظریہ پہلے سے سوسایٹی میں پنپ رہا ہوتا ہے ۔ یہ یکدم انسان کے دماغ میں نہیں اتا بلکہ وہ اہستہ اہستہ اپنے بڑوں سے ، کتابوں سے ، تعلیمی اداروں سے ، سکول کالج و یونیورسٹی کے اساتذہ سے ، اپنے دوستوں سے اور ماضی کے تحریکات سے سکھتا رہتا ہے ۔ ان میں بنیادی طور پر دو قسم کے نظریات ہوتے ہیں  ۔ ایک ظلم پر مبنی نظریہ جیسے فرغون اور سامراج کا نطریہ جبکہ دوسرا انسانی فطرت کا نظریہ عدل کا نظریہ ۔ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ سلیم لفطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ لیکن جب وہ ایک غلام معاشرے میں  پیدا ہوتا ہے ۔ تو پھر یہ غلام معاشرہ اور  ظالم سماج اس کا سلیم لفطرت طبیعت بدل کر اس کے ذہین میں غلط نظریات و تصورات ڈال دئیے جاتے ہیں...