پشتونوں اور بلوچوں کا ریاست پاکستان سے حقوق مانگنے کا طریقہ

تحریر سعید انور داوڑ 
پاکستان کا دنیا میں سیاسی و معاشی مقام اور اس ملک سے پشتونوں اور بلوچوں کے حقوق مانگنے کا طریقہ 

دوستوں ہر  ریاست کی یہ زمہ داری ہوتی ہیں کہ وہ لوگوں کے جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت اور روٹی کپڑا تعلیم و علاج کو یقینی بنائیں ۔ دنیا کی تمام مہذب ریاستیں اس زمہ داری کو احسن طریقے سے نبھا رہی ہے ۔ اور ریاست بنانے کا مقصد ہی یہی  ہوتا ہے ۔ چین ، جاپان ، ترکی ، ملائشیا ، امارات ، قطر ، آسٹریلیا ،یورپ اور امریکہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ 

لیکن بدقسمتی سے ہم ایک ایسے ملک سے حقوق کی  بھیک مانگ رہے ہیں جو خود بھی بھکاری ہے ۔ بچپن سے لیکر آج تک ہم دیکھ رہے ہیں کہ پشتون اور بلوچ ہزاروں لاکھوں احتجاج ریکارڈ کر چکے ہیں ۔ کبھی ایک مسلے کو لیکر کبھی دوسرے کو لیکن مجال ہے کہ مسائل ختم ہوئے ہو بلکہ آئے روز مسائل میں اضافہ ہو رہا ہیں ۔ ان میں سے اکثر مسائل ایسے ہیں جو خود ریاست پاکستان کے پیدا کردہ ہیں ۔ مثلآ غریبوں پر ٹیکس ، مہنگائی ، چیک پوسٹوں پر لوگوں کو بےجا تنگ کرنا ، دہشتگردی ، راستے بند کرنا ، مارکیٹوں کو گرانا ، لوگوں کو لاپتہ کرنا ، لینڈ مائنز ، ماورائے عدالت قتل ، پولیس گردی ، ایجنسیوں کی طرف سے بلیک میلنگ وغیرہ وغیرہ ۔ پشتون اور بلوچ وکلاء ، تاجر برادری ، طلباء ، کسان ، رکشہ والے ، مزدور ، سیاستدان ، عام عوام سب ہر مہینے سراپا احتجاج رہتے ہیں ۔ انفرادی طور پر الگ کبھی ایک دفتر کا تو کبھی دوسرے دفتر کا چکر لگاتے ہیں لیکن ان کو حق نہیں ملتا ۔ لہذا ہمیں سوچنا چاہئے کہ 70 سالوں سے اس ملک میں ہمارے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں تو کیا وجہ ہے ۔ کبھی ہم بجلی کے لوڈشڈنگ کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں کھبی ہسپتالوں میں علاج کے سہولت کے لئے ۔ تو کبھی کاروبار و روزگار کے لئے ۔ 
پاکستان اندر سے مکمل طور پر کھوکھلا ہو چکا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر یہ دنیا کے دہشت گرد ، کرپٹ ترین ،تھرڈ کلاس اور غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ ملک زراعت ، تجارت اور صنعت کیزریعے معیشت کو بہتر کرنے کی کوشش نہیں کر رہی بلکہ یہ دہشت گردی کے جنگوں میں معیشت ڈھونڈ رہی ہے۔  ان کو چلانے والے پہلے سے آدھا سے زیادہ ملک گنوا بیٹھے ہیں ۔ اور ان سے اپنے 4 صوبے چلائے نہیں جاتے مگر یہ خواب دیکھ رہے ہیں افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کا ۔ اس غلط مقصد کے لئے انہوں نے تین عشروں سے بےتحاشہ خون خرابا کیا ۔ لاکھوں پشتونوں کا قتل عام کیا گیا ۔ لیکن یہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے ۔ ابھی بھی وقت ہے ۔ کہ یہ توبہ کر لیں اور اس پالیسی کو تبدیل کریں ۔ ملک کے غریب لوگوں پر ترس کھائے ۔ اپنی توانائی دہشتگردی پر خرچ کرنے کی بجائے معیشت بہتر کرنے پر لگائیں ۔ ان فوجیوں سے کارخانے اور زراعت کا کام لیں ۔ نئے کارخانے لگائیں اور جوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کریں ۔ وسائل کی منصفانہ از سرنو تقسیم کریں ۔ تو ہوسکتا ہے ۔ ملک کے حالات ٹھیک ہو جائے اور ملک کا جو وقار مجروح ہوگیا ہے وہ بحال ہو جائے ۔ 
میں لاہور میں باغ جناح میں  قائد اعظم لائبریری میں مطالعہ کے لئے جاتا تھا ۔ وہاں پاکستان کے لئے پالیسی بنانے والے ایک تھینک ٹینک سے ملاقات ہوئی ۔ایک دن  میں نے ان سے  پوچھا کہ پاکستان میں غربت ہے ، بیروزگاری ہے ، لوڈ شیڈنگ ہے ، تعلیم کی کمی ہے ، لوگوں کی معیار زندگی انتہائی نیچے ہیں ۔ معیشت کی یہ حال ہے کہ ہم ساری دنیا کے مقروض ہے ۔ بین الاقوامی برادری میں پاکستان کو لوگ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تو ان تمام مسائل کی وجوہات کیا ہیں ؟ 
میں بڑے اچھے  جواب کی توقع کر رہا تھا کیونکہ وہ بڑا سینئر شحصیت تھا ۔ لیکن پتہ ہے انہوں نے کیا جواب دیا ۔ اس خبیث اور نالائق نے کہا کہ ان ساری وجوہات کی زمہ دار انڈیا ہے ھاھاھاھاھا ۔ 
دوستوں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک کو چلانے والے سارے اس کے اس تھینک ٹینک جیسے ہیں ۔

 یہ خود غرض لوگ ہیں ۔ تعصب والے ہیں ۔ چھوٹے صوبوں کی معاشی و سیاسی استحصال کرتے ہیں ۔ 

اس ملک کے کرپٹ نظام سے لوگ اتنے تنگ آ چکے ہیں کہ پانچ وقت نماز کے بعد اللہ تعالٰی سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں اس ملک کے کچہری اور تھانے سے محفوظ فرمائے ۔  کیونکہ لوگوں کو پتہ ہیں کہ اس ملک کے کچہری اور تھانے میں انسانوں کے ساتھ کونسا سلوک کیا جاتا ہیں ۔ 

انہوں نے صرف پنجاب کے اپنے چند شہروں کو ترقی دی ہیں ۔ باقی خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ کو ہر لحاظ سے بہت پیچھے اور پسماندہ رکھ دیا ہیں ۔ 

بنگلہ دیش کے ساتھ بھی یہ ایسا ہی کر رہے تھے ۔ جو کچھ آج یہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ کر رہے ہیں ۔ لیکن وہ سمجھدار اور سیاسی لوگ تھے ۔ انہوں نے وقت پر ان سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا ۔ اور آج وہ ہم سے بہت آگے ہیں ۔ بنگلہ دیش امن ہے۔  تعلیم و روزگار ہیں ۔ لوگ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ۔ لیکن ہم ان بھکاری سے ابھی بھی بھیک مانگ رہے ہیں ۔ 

لہذا پشتون اور بلوچ قیادت کو  اپنی انیوالی نسلوں کو آہ و بکا سے بچانے کے لیے ایک فیصلہ کرنا ہوگا ۔ ان کو اپنی سیاسی حکمت عملی کو تبدیل کرنا ہوگا ۔

 لیکن جو پرانے سیاست دان ہیں ان سے ہم ذیادہ توقع نہیں رکھ سکتے ۔ اس کے دو وجوہات ہیں ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ لاہور والوں کے ساتھ مراعات اور مفادات میں شریک ہوئے ہیں ۔ ان کے منہ میں انہوں نے ہڈی ڈال دی ہیں۔  دوسری وجہ یہ کہ یہ عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے ہیں کہ اس میں اتنی توانائی نہیں ہے کہ یہ ایک نئ محاذ آرائی شروع کر سکے ۔ ویسے بھی یہ شروع سے آرام پسند عادی ہوئے ہیں ۔

 تو اب پشتونوں اور بلوچوں کا واحد امید ان کے تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ۔ لہذا آپ نوجوانوں کو چاہیئے کہ اپنی زمہ داری کو پہچانے اور قوم کی قسمت بدلنے کے لئے کردار ادا کریں  منظور پشتین کی طرح ۔ قوم کی امیدیں نوجوانوں سے وابستہ ہیں ۔ امید ہے نوجوان قیادت قوم کو مایوس نہیں کرے گی ۔ 
اپنی قیمتی آرا سے آگاہ کریں ۔ شکریہ 
ازقلم سعید انور داوڑ

Comments

Popular posts from this blog

Government of Pakistan offers dialogue with PTM

جنگ آزادی کے عظیم ہیرو اور بانی پشتونستان حاجی مرزالی خان المعروف فقیر ایپی

وزیرستان کے موجودہ حالات خصوصاً تعلیمی حالت