فیسبک اور انقلاب
انقلاب میں فیسبک کا کردار ؛
تحریر سعید انور داوڑ
اس موضوع میں دو لفظ ہیں ۔ ایک انقلاب اور دوسرا فیسبک کا کردار ۔
انقلاب کسے کہتے ہیں ۔ انقلاب ظالمانہ سامراجی نظام کے خاتمے اور اس کی جگہ مقامی لوگوں کی اپنی خودمختار انصاف اور مساوات پر مبنی حکومت کا قیام انقلاب کہلاتا ہے ۔
انقلابات کب آتے ہیں ۔ انقلابات اس وقت آتے ہیں ۔ جس معاشرے میں ظلم و زیادتیاں ذیادہ ہوتی ہیں ۔ وہاں خود بخود انقلاب جنم لیتے ہیں ۔ یا جب سوسائٹی جمود کا شکار ہو جاتی ہے اور ان کی ترقی نہیں ہوتی تو پھر انقلاب ناگزیر ہوجاتا ہے ۔ جب سامراج مقامی سوسائٹی پر ہر طرح سے ظلم کا انتہا کر دے ۔ ظلم کی محتلف قسمیں ہے ۔ جیسے ریاست پاکستان کی طرف سے لوگوں پر معاشی ظلم مہنگائی کی صورت میں اور غریبوں پر ٹیکس کا بہت بڑا بوجھ ڈالنا یا مقامی لوگوں کے وسائل جیسے دریا ، ڈیم ، بجلی و پانی ، تیل و گیس ، اور معدنیات وغیرہ پر قبضہ کرنا ، اس طرح سیاسی استحصال جس میں مقامی لوگوں کو حق خودارادیت سے محروم کیا گیا اور ۔ اس کے بعد جسمانی ظلم یا نسل کشی جو پشتونوں کے ساتھ گزشتہ 20 سالوں ںسے ریاست کی طرف سے جاری ہیں ۔
فیسبک کیا کردار ادا کر سکتا ہے ؟ دوستوں انقلاب کے لئے راستہ ہموار کرنے میں فیسبک بہت بڑا کردار نبھا رہا ہے ۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے ۔ کہ سامراجی ملکوں میں قومی دھارے کا میڈیا ریاست کے کنٹرول میں ہوتا ہے ۔اور کمیونیکیشن کے بغیر یہ کام ہوتا نہیں اس لئے فیسبک یا سوشل میڈیا واحد افشن رہ جاتا ہے ۔ چونکہ ریاست کے تمام ادارے جیسے سول بیوروکریسی ، پارلیمنٹ ، عدلیہ وغیرہ سب سامراج کے بقا او دفاع کیلئے کام کرتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح میڈیا بھی جسے ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ریاستی پروپیگنڈے کیلئے کام کرتا ہیں ۔ لہذا ایسے حالات میں آج کل کے دور میں فیسبک غریب اور مظلوم کے ہاتھ میں بہت بڑا میڈیا ہے ۔ جسے لوگ سرکاری ٹی وی اور اخبار سے زیادہ پسند کرتے ہیں اور سرکاری ٹی وی سے زیادہ دیکھتے ہیں ۔ اگر اس کا استعمال انقلاب کے لئے بڑھا دیا جائے تو وہ دن دور نہیں کہ مظلوم قوموں کو جلد سامراج سے نجات مل جائے گی ۔
دوستوں فیسبک کیزریعے لوگوں کو انقلاب کا پیغام پہنچایا جاتاہے ۔ لوگوں کو فیسبک پر انقلابی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہیں اور انہیں آرگنائز کیا جاتا ہیں ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 2010 اور 2011 میں عرب بہار میں فیسبک نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا ۔ اسی سال تیونس اور مصر میں انقلاب آگیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں عربوں کی نالائقی کی وجہ سے انقلاب کو فوجیوں نے ہائی جیک کیا اور اس کے ثمرات عام عوام تک صحیح معنوں میں نہیں پہنچائے جاسکے ۔
عرب بغاوت میں 8 جون 2010 بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اس دن 29 سالہ غنیم اپنے گھر میں فیسبک دیکھ رہا تھا ۔ کہ اچانک اس کے آنکھوں کے سامنے ایک تصویر گزری ۔ جو خون میں لت پت تھی ۔ اور ان کا خلیہ بگاڑ دیا گیا تھا ۔ جبڑے بھی پٹے ہوئے تھے ۔ ان کو جلد معلوم ہوا کہ یہ تصویر الیکزینڈریا سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ خالد محمد سید کی تھی جس کو مصر کے پولیس نے تشدد کر کے قتل کیا تھا اور ایک جوان زندگی چھین لی گئ تھی ۔
غنیم فوراً ان لائن آگیا ۔ اور فیسبک پر ایک پیج بنادی ۔ جس میں انہوں نے لکھا ۔ کہ " آج انہوں نے خالد کو قتل کیا " اگر میں نے اس جرم پر ردعمل نہ دکھایا تو " کل وہ مجھے مار دیں گے " ۔ انہوں نے سوچنے کے بعد اس پیج کانام " ہم سب خالد ہیں " رکھ لیا ۔
آگے انہوں نے لکھا تمام جوان مصریوں کو غلام بنایا گیا ہیں جن کو اپنے وطن میں حقوق حاصل نہیں ہیں۔ 2 منٹ بعد 300 لوگوں نے پیج کو جوائن کیا ۔ تین مہینے کے اندر یہ تعداد 2 لاکھ 50 ھزار تک پہنچ گئی ۔ اور یوں غنیم عرب بغاوت کے رہنما آواز بن چکے تھے ۔
آج خلیج کے ممالک میں 100 ملین جوانوں کے فیسبک پیجز ہیں اور ویب سائٹس یوزرز کی تعداد 13.6 ملین ہیں ۔
پاکستان میں پشتون نوجوانوں کی تعداد بہت ذیادہ ہیں ۔ جن کی عمر 13 سال سے لیکر 29 سال ہیں ۔ ان میں سے اکثر تعلیم یافتہ ہیں لیکن بیروزگار ہیں ۔ فیسبک ، ٹویٹر اور یوٹیوب اکاؤنٹس رکھتے ہیں ۔ اور سخت احساس محرومی کے شکار ہیں ۔ اگر ان کو ہم منظم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پشتون بہت جلد بہت بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر ریاستی مشینری جمپ کر سکتی ہیں ۔
دوستوں فیسبک نے پی ٹی ایم کو بہت دوام بخشا ۔ پی ٹی ایم کے جوانوں نے فیسبک کے زریعے ریاست کے ناک میں دم کر رکھا ہیں ۔ ریاست کے پالیسی سازوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہیں ۔ مقتدر حلقوں کی نیندیں اڑا دی ہیں ۔ جوانوں نے فیسبک کے ذریعے پی ٹی ایم کا پیغام گھر گھر پہنچا دیا ۔ پوری دنیا تک پہنچا دیا ۔ فیسبک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر اور یوٹیوب کے زریعے دنیا کے کونے کونے کے پشتون ایک دوسرے کے دکھ درد سے 24 گھنٹے باخبر رہتے ہیں ۔ تمام پشتون ظالم نظام کے خلاف ایک ہوگئے ہیں ۔ فیسبک کے زریعے فکری انقلاب پہلے سے ہی اچکا ہے ۔ اب "گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو " رہ گیا ہے ۔
میں آپ سب جوانوں سے اپیل کرتا ہوں ۔ کہ فیسبک اور دوسرے سوشل میڈیا کا استعمال قوم کے لئے ظلم سے آزادی کے لیے استعمال کریں ۔ یہ آپ کے ہاتھ میں بہت بڑا ہتھیار ہیں ۔ اس کو معمولی نہ سمجھا جائے ۔ فیسبک کو آپ محض تفریح کے لئے استعمال نہ کریں ۔ تفریح آزاد اور ترقی یافتہ اقوام کرتے ہیں ۔ غلام قومیں اس وقت تک تفریح نہیں کرتیں جب تک آزادی حاصل نہ کریں ۔ لہذا اپنا ٹائم قوم کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے میں قیمتی بنائیں ۔ اچھے اچھے رائٹر بن کر قوم کی تقدیر بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔
آخر میں مارک ذکر برگ کا بہت بہت شکریہ ! ورنہ آج ہم ایک دوسرے کو خط لکھتے جو بہت دنوں بعد ایک دوسرے کو ملتی ۔
ازقلم سعید انور داوڑ
تحریر سعید انور داوڑ
اس موضوع میں دو لفظ ہیں ۔ ایک انقلاب اور دوسرا فیسبک کا کردار ۔
انقلاب کسے کہتے ہیں ۔ انقلاب ظالمانہ سامراجی نظام کے خاتمے اور اس کی جگہ مقامی لوگوں کی اپنی خودمختار انصاف اور مساوات پر مبنی حکومت کا قیام انقلاب کہلاتا ہے ۔
انقلابات کب آتے ہیں ۔ انقلابات اس وقت آتے ہیں ۔ جس معاشرے میں ظلم و زیادتیاں ذیادہ ہوتی ہیں ۔ وہاں خود بخود انقلاب جنم لیتے ہیں ۔ یا جب سوسائٹی جمود کا شکار ہو جاتی ہے اور ان کی ترقی نہیں ہوتی تو پھر انقلاب ناگزیر ہوجاتا ہے ۔ جب سامراج مقامی سوسائٹی پر ہر طرح سے ظلم کا انتہا کر دے ۔ ظلم کی محتلف قسمیں ہے ۔ جیسے ریاست پاکستان کی طرف سے لوگوں پر معاشی ظلم مہنگائی کی صورت میں اور غریبوں پر ٹیکس کا بہت بڑا بوجھ ڈالنا یا مقامی لوگوں کے وسائل جیسے دریا ، ڈیم ، بجلی و پانی ، تیل و گیس ، اور معدنیات وغیرہ پر قبضہ کرنا ، اس طرح سیاسی استحصال جس میں مقامی لوگوں کو حق خودارادیت سے محروم کیا گیا اور ۔ اس کے بعد جسمانی ظلم یا نسل کشی جو پشتونوں کے ساتھ گزشتہ 20 سالوں ںسے ریاست کی طرف سے جاری ہیں ۔
فیسبک کیا کردار ادا کر سکتا ہے ؟ دوستوں انقلاب کے لئے راستہ ہموار کرنے میں فیسبک بہت بڑا کردار نبھا رہا ہے ۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے ۔ کہ سامراجی ملکوں میں قومی دھارے کا میڈیا ریاست کے کنٹرول میں ہوتا ہے ۔اور کمیونیکیشن کے بغیر یہ کام ہوتا نہیں اس لئے فیسبک یا سوشل میڈیا واحد افشن رہ جاتا ہے ۔ چونکہ ریاست کے تمام ادارے جیسے سول بیوروکریسی ، پارلیمنٹ ، عدلیہ وغیرہ سب سامراج کے بقا او دفاع کیلئے کام کرتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح میڈیا بھی جسے ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ریاستی پروپیگنڈے کیلئے کام کرتا ہیں ۔ لہذا ایسے حالات میں آج کل کے دور میں فیسبک غریب اور مظلوم کے ہاتھ میں بہت بڑا میڈیا ہے ۔ جسے لوگ سرکاری ٹی وی اور اخبار سے زیادہ پسند کرتے ہیں اور سرکاری ٹی وی سے زیادہ دیکھتے ہیں ۔ اگر اس کا استعمال انقلاب کے لئے بڑھا دیا جائے تو وہ دن دور نہیں کہ مظلوم قوموں کو جلد سامراج سے نجات مل جائے گی ۔
دوستوں فیسبک کیزریعے لوگوں کو انقلاب کا پیغام پہنچایا جاتاہے ۔ لوگوں کو فیسبک پر انقلابی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہیں اور انہیں آرگنائز کیا جاتا ہیں ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 2010 اور 2011 میں عرب بہار میں فیسبک نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا ۔ اسی سال تیونس اور مصر میں انقلاب آگیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں عربوں کی نالائقی کی وجہ سے انقلاب کو فوجیوں نے ہائی جیک کیا اور اس کے ثمرات عام عوام تک صحیح معنوں میں نہیں پہنچائے جاسکے ۔
عرب بغاوت میں 8 جون 2010 بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اس دن 29 سالہ غنیم اپنے گھر میں فیسبک دیکھ رہا تھا ۔ کہ اچانک اس کے آنکھوں کے سامنے ایک تصویر گزری ۔ جو خون میں لت پت تھی ۔ اور ان کا خلیہ بگاڑ دیا گیا تھا ۔ جبڑے بھی پٹے ہوئے تھے ۔ ان کو جلد معلوم ہوا کہ یہ تصویر الیکزینڈریا سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ خالد محمد سید کی تھی جس کو مصر کے پولیس نے تشدد کر کے قتل کیا تھا اور ایک جوان زندگی چھین لی گئ تھی ۔
غنیم فوراً ان لائن آگیا ۔ اور فیسبک پر ایک پیج بنادی ۔ جس میں انہوں نے لکھا ۔ کہ " آج انہوں نے خالد کو قتل کیا " اگر میں نے اس جرم پر ردعمل نہ دکھایا تو " کل وہ مجھے مار دیں گے " ۔ انہوں نے سوچنے کے بعد اس پیج کانام " ہم سب خالد ہیں " رکھ لیا ۔
آگے انہوں نے لکھا تمام جوان مصریوں کو غلام بنایا گیا ہیں جن کو اپنے وطن میں حقوق حاصل نہیں ہیں۔ 2 منٹ بعد 300 لوگوں نے پیج کو جوائن کیا ۔ تین مہینے کے اندر یہ تعداد 2 لاکھ 50 ھزار تک پہنچ گئی ۔ اور یوں غنیم عرب بغاوت کے رہنما آواز بن چکے تھے ۔
آج خلیج کے ممالک میں 100 ملین جوانوں کے فیسبک پیجز ہیں اور ویب سائٹس یوزرز کی تعداد 13.6 ملین ہیں ۔
پاکستان میں پشتون نوجوانوں کی تعداد بہت ذیادہ ہیں ۔ جن کی عمر 13 سال سے لیکر 29 سال ہیں ۔ ان میں سے اکثر تعلیم یافتہ ہیں لیکن بیروزگار ہیں ۔ فیسبک ، ٹویٹر اور یوٹیوب اکاؤنٹس رکھتے ہیں ۔ اور سخت احساس محرومی کے شکار ہیں ۔ اگر ان کو ہم منظم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پشتون بہت جلد بہت بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر ریاستی مشینری جمپ کر سکتی ہیں ۔
دوستوں فیسبک نے پی ٹی ایم کو بہت دوام بخشا ۔ پی ٹی ایم کے جوانوں نے فیسبک کے زریعے ریاست کے ناک میں دم کر رکھا ہیں ۔ ریاست کے پالیسی سازوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہیں ۔ مقتدر حلقوں کی نیندیں اڑا دی ہیں ۔ جوانوں نے فیسبک کے ذریعے پی ٹی ایم کا پیغام گھر گھر پہنچا دیا ۔ پوری دنیا تک پہنچا دیا ۔ فیسبک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر اور یوٹیوب کے زریعے دنیا کے کونے کونے کے پشتون ایک دوسرے کے دکھ درد سے 24 گھنٹے باخبر رہتے ہیں ۔ تمام پشتون ظالم نظام کے خلاف ایک ہوگئے ہیں ۔ فیسبک کے زریعے فکری انقلاب پہلے سے ہی اچکا ہے ۔ اب "گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو " رہ گیا ہے ۔
میں آپ سب جوانوں سے اپیل کرتا ہوں ۔ کہ فیسبک اور دوسرے سوشل میڈیا کا استعمال قوم کے لئے ظلم سے آزادی کے لیے استعمال کریں ۔ یہ آپ کے ہاتھ میں بہت بڑا ہتھیار ہیں ۔ اس کو معمولی نہ سمجھا جائے ۔ فیسبک کو آپ محض تفریح کے لئے استعمال نہ کریں ۔ تفریح آزاد اور ترقی یافتہ اقوام کرتے ہیں ۔ غلام قومیں اس وقت تک تفریح نہیں کرتیں جب تک آزادی حاصل نہ کریں ۔ لہذا اپنا ٹائم قوم کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے میں قیمتی بنائیں ۔ اچھے اچھے رائٹر بن کر قوم کی تقدیر بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔
آخر میں مارک ذکر برگ کا بہت بہت شکریہ ! ورنہ آج ہم ایک دوسرے کو خط لکھتے جو بہت دنوں بعد ایک دوسرے کو ملتی ۔
ازقلم سعید انور داوڑ
Comments
Post a Comment