پی ٹی ایم ختم ہونے کے لئے نہیں بنی ہے ۔ بلکہ ظالموں کو ختم کرنے کے لیے ہمیشہ کے لیے وجود میں آئی ہے
کفر کے فتوے ، دھمکیاں اور پشتون تحفظ موومنٹ ؛
#تحریر : #سعیدانورداوڑ
اتوار کو جمیعت علمائے اسلام کے جنوبی وزیرستان محسود علاقہ کے چند مولیوں نے پشتونوں کے خون پسینے کی کمائی سے بنے ایک مسجد میں بیٹھ کر مظلوم پشتونوں کے لئے آواز اٹھانے والے پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف کفر کا فتویٰ جو ان کے پاس واحد ہتھیار ہے جاری کیا ہے ۔ اور ساتھ میں یہ دھمکی بھی کی ہے کہ ہم پی ٹی ایم کو ختم کریں گے ۔
دوستوں پہلی بات تو یہ ہے کہ اب وہ وقت گزر چکا ہے کہ ان مولویوں کے فتووں پر قوم اشتعال میں آکر فتنہ و فساد برپا کرتی ۔ اب وقت بدل گیا ہے ۔ پشتون قوم میں بہت شعور آگیا ہے ۔ لوگ دین کے ساتھ ساتھ سیاست کو بھی اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ۔ ان کو معلوم ہے کہ کافر اور مسلمان کون ہے ۔ ظالم اور مظلوم کون ہیں ۔ اپنا اور پرایا کون ہے ۔ لہذا یہ کفر والا فتویٰ تم اپنی جیب میں رکھو ۔ یہ فتویٰ 21ویں صدی میں کام نہیں کرتا ۔ ہم نے نئی ھتیار 7ATA لگانے والوں کو قانونی شکست دی ۔ تمہارا فتویٰ تو پرانا ہتھیار ہے ۔ اس میں اتنی طاقت باقی نہیں ہے۔ قوم کو پتہ ہے کہ منظور پشتین تم سے زیادہ اچھا مسلمان ہے ۔
دوسری بات تم نے کہا ہے کہ پی ٹی ایم کو تم ختم کروگے ۔ پی ٹی ایم تمہارا باجوہ جس کے لئے تم نے اسلام آباد دھرنے میں زندہ باد کے نعرے لگائے تھے ختم نہیں کرسکتا تم کیا ختم کر سکوں گے ۔ کیونکہ پی ٹی ایم مظلوم محلوق خدا کی آواز ہے ۔ اور محلوق کی آواز خدا کی آواز ہوتی ہے ۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ تم نے اگر اپنی اصلاح نہیں کی تو تم ختم ہونے والے ہو ۔
ہم آپ کی تکلیف کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ پی ٹی ایم کے آنے سے تمہاری سیاسی دکانداری پر بہت منفی اثر پڑا ہے ۔ پی ٹی ایم کے وجود میں آنے سے پہلے فاٹا اور بالخصوص وزیرستان میں تمہاری اجارہ داری قائم تھی ۔ تم وزیرستان کے سیاہ و سفید کے مالک تھے ۔ قومی اسمبلی کی نشست ہو یا سینٹ کی وہ بلا شرکت غیرے تمہارا حق تھا ۔ اور ہر دفعہ بھاری اکثریت سے آرام سے پارلیمنٹ میں پہنچتے ۔ لوگ صرف ووٹ نہیں دیتے تھے ۔ ووٹ کے ساتھ ساتھ گاڑیاں اور نقدی بھی پیش کرتے تھے ۔ لیکن جب سے پی ٹی ایم وجود میں آئی ہے ۔ تمہارے ووٹ بینک پر نہ صرف اثر پڑا ہے بلکہ شمالی وزیرستان میں آپ کو مکمل طور پر ناک آؤٹ کر دیا گیا ہے ۔ اور جنوبی وزیرستان میں بھی جوانوں نے تمہاری دم پر پاؤں رکھا ہے ۔ اس لئے تمہاری چیخیں نکلنا شروع ہوئی ہے ۔ اور پرانے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہو ۔ اور ہمیں یہ بھی پتہ ہے ۔ کہ تم یہ سب کچھ سامراج کے کہنے پر کر رہے ہو ۔ ورنہ تمہیں بھی اچھی طرح پتہ ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ حق پر ہے ۔ اللہ تمہیں ہدایت دے ۔ یہ فتووں کا کاروبار تو تم نے 70 سالوں سے جاری رکھا ہے ۔ جتنے بھی پشتونوں کو طالبان نے مارا ۔ اس فتویٰ کے ساتھ مارا کہ نعوذباللہ یہ کافر اور مرتد تھے ۔ قیامت کے دن تمہاری بہت سخت پکڑ ہوگی ۔ اور انقلاب آنے کے بعد پشتون قوم تم سے ایک ایک فتوے اور ایک ایک ظلم کا حساب لے گی ۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ ہم یہ سب بھول گئے ہیں ۔ نہیں نہیں ایک ایک واقعے کو تاریخ کے کتابوں میں محفوظ کیاجاتا ہے ۔
آج سے ڈھائی سال پہلے جب پی ٹی ایم وجود میں آئی تو میں نے کہا تھا کہ یہ لوگ ہماری راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔ کیونکہ انقلاب سے ہمیشہ مراعات یافتہ طبقہ اور سٹیٹس کو والے لوگوں کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے ۔
دوستوں ان کے ساتھ تو ہمارا پچھلا حساب بھی باقی ہے ۔اس گروہ نے 70 سال پشتونوں کی مذہب کے نام پر سیاسی ، سماجی اور معاشی استحصال کیا ہیں ۔ مسجد و محراب کو ہمیشہ اپنی دنیاوی فائدے اور ذاتی سیاست کے لئے استعمال کیا ہیں ۔ لاؤڈ سپیکر کا غلط استعمال کیا ہیں ۔ انہوں نے پشتونوں سے چندہ مانگا ۔ قوم نے چندہ دیا ۔ انہوں نے ووٹ مانگا ۔ قوم نے ووٹ دیا ۔ انہوں نے جہاد اور جنگ کے لئے جوان لڑکے مانگے قوم نے نے جوان لڑکے دئیے ۔ بدلے میں انہوں نے قوم کو کیا دیا ؟ لاشیں ، خود کش جیکٹ اور بم و بارود ، جہالت ، پسماندگی وغیرہ وغیرہ ۔
ان لوگوں نے آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے کہنے پر روس کے خلاف امریکی مفاد کی جنگ کو اسلامی جنگ کا نام دیا ۔ اور پشتونوں کو اس آگ میں دھکیل دیا ۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں ۔ یہ خود ان کے قائد مولانا فضل الرحمن کہہ رہا ہے ۔ ان کا بیان تمام قومی اخبارات میں ریکارڈ پر موجود ہیں ۔ اس سے پہلے ان کے ہم خیال مذہبی رہنما قاضی حسین احمد کا بیان بھی تمام اخبارات کا زینت بنا تھا ۔ جس میں اس نے قوم سے معافی مانگی تھی ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم سے تاریخی غلطی ہوئی ۔ یہ جہاد نہیں تھا بلکہ امریکہ کا مفاداتی جنگ تھا ۔ اس کے لئے ہم قوم سے معافی مانگ رہے ہیں ۔ تو عوام کی طرف سے کچھ اس طرح کا تبصرہ آیا ۔ کہ آپ نے تو معافی مانگی لیکن وہ جو لاکھوں پشتون قتل ہوئے ان کا مداوا کون کرے گا ۔
اس گروہ نے ہر دور میں پشتونوں کو اندھیروں میں رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ جب پوری دنیا ماڈرن سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے حصول میں مشغول تھی ۔ اس وقت انہوں نے پشتون سرزمین پر فتوے جاری کئے کہ تعلیم حاصل کرنا حرام ہے ۔ جسکی وجہ سے تعلیم کی میدان میں پشتون قوم باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئ ۔ ہمارے گاؤں کے ایک مدرسے میں ایک مولوی تھا ۔ جو صبح سویرے مدرسے میں لڑکوں کو قاعدے و سیپارے پڑھاتا تھا ۔ جب لڑکے سکول جانے لگتا تو ان کو بہت غصہ آتا تھا اور بچوں سے سکول کے لئے بد دعائیں نکالتا کہ یا اللہ اس سکول کو بموں سے اڑا دے ۔ لیکن جب وہاں پر ایک استاد کے مرنے کے بعد اسلامیات کی ویکنسی خالی ہوئی تو اس مولوی نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر کو اس زمانے میں ایک لاکھ روپے رشوت دے کر خود کو اسی سکول میں بھرتی کروایا ۔ اور ابھی تک اسی سکول سے تنخواہ لے رہا ہے ۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہم نے ہمیشہ ان مولویوں کو ووٹ دیکر پارلیمنٹ بھیج دیا ۔ لیکن ان کے ہوتے ہوئے ہمارے ساتھ ہر ظلم ہوا ۔ ہمارے ہزاروں مشران ، بزنس مینوں ، ڈاکٹروں اور جوانوں کے گلے کاٹے گئے ۔ ہمارے سکولوں کو بموں سے اڑایا گیا ۔ ریاست پاکستان نے وزیرستان پر گن شپ ہیلی کاپٹروں اور جیٹ طیاروں سے بمباریاں کی ۔ ہمیں کئ کئ سال تک آئی ڈی پیز بنایا گیا ۔ ہمارے گھروں ، بازاروں ، دکانوں ، حجروں کو مسمار کیا گیا ، ہمارے چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا ، ہمیں چیک پوسٹوں پر بےعزت کیا گیا لیکن یہ گروہ ہمارے ساتھ ان تمام مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہی ۔ انہوں نے کبھی بھی ظالم کو ظالم نہیں کہا ۔ کبھی بھی وزیرستان کے مظلوموں کے ساتھ ان ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوئے ۔
مذکورہ بالا مایوس کن حالات میں پشتونوں کی خوش قسمتی ہے کہ انکو حقیقی قوم پرست پلیٹ فارم پشتون تحفظ موومنٹ کی صورت میں مل چکا ہے ۔ جو صحیح معنوں میں اسلام اور نیک لوگوں کے نقش قدم پر کاربند ہے. درویش صفت جوان منظور پشتین قوم کی خدمت اور ظلم و بربریت سے آزادی کا جذبہ لیۓ پُرخار راستوں پر رواں دواں ہے اور شاید تاریخ اسے بہت بڑے لقب سے نوازیں.
آج صرف یہی تحریک صحیح معنوں میں مظلوم پشتون قوم کی ترجمانی کر رہی ہے۔ اس تحریک کے رہنماؤں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ واقعی عوامی نمائندے ہیں ۔انکے نامور نوجوان پارلیمانی رہنماؤں علی وزیر اور محسن داوڑ نے وزارتوں کو ٹھکرایا اور ان ایوانوں میں ظالم کو ظالم کہہ کر سنت حسینی کی یاد تازہ کرا دی۔
اگر یہی فریضہ جمیعت علمائے اسلام والے ادا کرتے تو شاید یہ تحریک وجود میں ہی نہ اتی. ان مولویوں کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ نیم مارشلائی پاکستانی قیادت جو 70 سال سے ہماری استحصال کی مرتکب ہیں کی بجائے پشتون عوام کی طرف دیکھے اور اواز خلق کو نقارہ خدا سمجھے. برا بھلا کہنے اور فتوے جاری کرنے سے بہتر ہے کہ اس تحریک کے ہاتھ مضبوط کریں اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کریں. بصورت دیگر پشتونوں کی نظروں میں ہمیشہ گرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
#ازقلم_سعیدانورداوڑ
Comments
Post a Comment