نظریہ ہر روز نیا نہیں بنتا

تحریر؛ سعیداانور داوڑ

کچھ محترم دوستوں کا خیال ہے کہ پشتون تحفظ مومنٹ کے لیے یا پشتون قوم کے لیے وہ کوئی نیا نظریہ بنا لیں گے  ۔

تین چیزوں میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے ۔
١۔ نظریہ
٢۔ تنظیم
٣۔اہداف
۴۔ حکمت عملی
یاد رہے ۔ تنظیم پہلے نہیں بنتا ۔ بلکہ تنظیم بننے سے پہلے ساتھی ایک نظریہ اپنا لیتے ہیں ۔ اور پھر اس نظریہ کی بنیاد پر ایک تنظیم تشکیل دی جاتی ہے ۔ یہ نظریہ پہلے سے سوسایٹی میں پنپ رہا ہوتا ہے ۔ یہ یکدم انسان کے دماغ میں نہیں اتا بلکہ وہ اہستہ اہستہ اپنے بڑوں سے ، کتابوں سے ، تعلیمی اداروں سے ، سکول کالج و یونیورسٹی کے اساتذہ سے ، اپنے دوستوں سے اور ماضی کے تحریکات سے سکھتا رہتا ہے ۔ ان میں بنیادی طور پر دو قسم کے نظریات ہوتے ہیں  ۔ ایک ظلم پر مبنی نظریہ جیسے فرغون اور سامراج کا نطریہ جبکہ دوسرا انسانی فطرت کا نظریہ عدل کا نظریہ ۔ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ سلیم لفطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ لیکن جب وہ ایک غلام معاشرے میں  پیدا ہوتا ہے ۔ تو پھر یہ غلام معاشرہ اور  ظالم سماج اس کا سلیم لفطرت طبیعت بدل کر اس کے ذہین میں غلط نظریات و تصورات ڈال دئیے جاتے ہیں  ۔ لیکن جب سوسائٹی میں ان کو اچھے رہنما (مرحوم یا زندہ ) ، اچھی کتابیں اور اچھے انسان مل جاتے ہیں  تو ان کے دماغ میں ایک نیک اور اچھا انسان دوست نظریہ پیدا ہو جاتا  ہے ۔ پھر مطالعہ ، تحقیق ، حالات و واقعات کی روشنی میں  ان کا یہ نظریہ پختہ ہوجاتا ہے  ۔ پھر وہ اپنے ہم خیال  لوگوں کو  تلاش کرتا ہے ۔

اس کے بعد دوسرا مرحلہ  شروع ہوجاتا ہے ۔ جب اس نظریہ پر  بہت سارے ہم خیال  دوست متفق ہوجاتے ہیں  تو وہ ایک مشترکہ نظریہ یا اجتماعی نظریہ قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد اس نظریے کی بنیاد پر ہمفکر دوست ایک  تنظیم بناتےہیں ۔ اگر کوئی دوست اس نظریہ سے انحراف کرتا ہے تو وہ اس نظریے پر بنے تنظیم کا حصہ نہیں رہتا ۔

جب تنظیم وجود میں  اجاتی ہے توتیسرے نمبر پر  تنظیم اپنے نظریے کی روشنی میں  اپنے لیے  اہداف کا تعین کرتی ہے ۔ یاد رہے اہداف وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے ہے لیکن نظریہ نہیں بدلتا ۔ مثلا تنظیم کا ایک ہدف ہے قوم کے لیے آزادی حاصل کرنا ۔ جب تنظیم اپنا یہ ہدف پورا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو یہ دوسرا هدف جیسے معاشی ترقی  وغیرہ پر کام شروع کرتی ہے ۔

چوتھے لیول پر تنظیم ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی طے کر لیتی ہے  ۔حکمت عملی  اپنے اہداف تک کا راستہ یا طریقہ ہے ۔ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق حکمت عملی  بنائی جاتی ہے  ۔ یہ وقت کے ساتھ بدلتی ہے ۔

ایک اور بات کے تنظیم کی ناکامی کی صورت میں نظریے کا قصور نہیں ہے بلکہ اچھی یا بری حکمت عملی کا یا کارکنو کی کم محنت کا قصور ہے  ۔

نظریہ پر کاربند لوگو کو اپنا نظریہ سے بدظن کرنے اور بدنام کرنے کے لئے سامراج مختلف پروپیگنڈے سے کام لیتی ہے ۔ محالفین نظریہ پر ڈٹے رہنے والے نظریاتی کارکنوں کو بدنام کرنے کے لیے نظریہ پرست کا نام دیتے ہے ۔ تا کہ  لوگ اس نظریہ کو چھوڑ دے ۔ جب کارکن نظریہ چھوڑ دیتا ہے تو وہ اجتماغی جدوجہد بھی چھوڑ دیتا ہے  ۔ اور اس طرح سے جن لوگو کو اس نظریہ سے تکلیف ہوتی ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔

کچھ لوگ اہداف اور نظریہ میں فرق کو نہیں سمجھتے ۔ نظریہ کا بڑا وسیع مفہوم ہے ۔ ایک هدف حاصل کرنے کے بعد دوسرا پھر تیسرا اور اس طرح یہ سلسلہ ہوتا ہے ۔

نظریہ ایک ہی ہے اور یہ روز اول سے ہے ۔ پشتون تحفظ موومنٹ کوئی نیا نظریہ نہیں لیکر آئی ہے ۔ نہ ابھی کوئی نیا نظریہ بنا رہی ہے ۔ بلکہ 2018 میں پہلے سے موجود ایک نظریہ پر تمام ہم خیال و ہم فکر پشتون متحد ہوگئے ۔ اور اس نظریے کے نتیجے میں پشتون تحفظ موومنٹ  معرضِ وجود میں آئی ۔ اور گزشتہ ڈھائی سالوں سےیعنی 2018 سے لیکر مئ 2020 تک پشتون تحفظ موومنٹ اس نظریے پر چل رہی ہے ۔ اور آگے بھی اس نظریہ پر چلے گی ۔ پشتون تحفظ موومنٹ میں ذیادہ تر وہ کارکن زیادہ آگے ہیں ۔جو پڑھے لکھے ہیں اور  جنہوں نے دنیا کے انقلابات اور تاریخ کا مطالعہ کیا ہے ۔ جنہوں نے محتلف اچھے لیڈروں کی زندگی کو سٹڈی کیا ہے ۔ کہ ان لوگوں نے کس طرح اپنے وطن میں اپنے قوموں کی تقدیر بدل دی ۔ اور قوم کو غلامی سے نکال کر آزادی کے نعمت سے نوازا اور ظلم کا خاتمہ کرکے عدل و مساوات پر مبنی نظام قائم کیا ۔

لہذہ اگر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ وہ ابھی کوئی نیا نظریہ بنا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ گویا وہ یہ کہہ رہا ہے ۔ کہ دو سالوں سے پشتون تحفظ موومنٹ بغیر نظریہ کےچل رہی ہے تو یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔ کیونکہ پشتون تحفظ موومنٹ بہت اعلیٰ نظریہ رکھتی ہے ۔ اور یہ نظریہ سالہاسال کی محنت ، مشاہدات ، مطالعہ ، سخت تجربات کے نتیجے میں پشتون تحفظ موومنٹ تک پہنچ چکی ہے ۔ بلکہ دو قدم اور پیچھے چلتے ہیں ۔ یہ نظریہ محسود تخفظ مومنٹ بننے سے پہلے مشر منظور پشتین اور آپ کے رفقاء اور ان جیسے سینکڑوں محسود اور پشتون جوانوں کے ذہنوں میں پنپ رہا تھا ۔ یہ نظریہ ان جوانوں کے ذہنوں میں پہلے سے موجود تھا ۔ جس کا وقتاً فوقتاً وہ محتلف فورم پر اظہار بھی کر رہے تھے ۔  حالات اور مطالعہ نے ان کو یہ نظریہ سکھایا تھا اور بالآخر اس نظریے نے MTM کو تشکیل دیا ۔ اور 2014میں اس نظریے کی تحت محسود تحفظ موومنٹ کی بنیاد رکھ دی گئ ۔

پشتون تحفظ موومنٹ بننے کے بعد صرف اہداف میں تھوڑا سا اضافہ کیا ہے ۔ باقی وہی نظریہ ہے ۔ نظریہ میں ایک انچ کا فرق بھی نہیں آیا ہے اور نہ ہی آنا چاہیئے ۔ لہذہ ہم کون ہوتے ہے نیا نظریہ بنانے والے ۔  کسی نیا نظریہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

یہ نظریہ سالہاسال سے چلا آرہا ہے ۔ بلکہ روز اول سے انسان کو ودیعت کر دی ہے ۔اس نظریہ پر کام کرنے والے ہم پہلے اور آخری نہیں ہے ۔

یہ پیر روشان بایزید انصاری کا نظریہ ہے ۔ یہ خوشحال خان کا نظریہ ہے ۔ یہ میر وایس خان کا نظریہ ہے ۔ یہ فقیر ایپی کا نظریہ ہے ۔ یہ باچا خان اور خان شہید صمد خان ، ولی خان اور محمود خان کا نظریہ ہے ۔ دوسرے لفظوں یہ سارے اکابرین اس نظریے کیلئے جدوجہد کر رہے تھے ۔

فرق صرف حکمت عملی کا ہے ۔ ہر علاقے اور ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ۔ فقیر ایپی کا علاقہ پہاڑی علاقہ تھا اور اس دور کا اسلحہ بھی ان کے پاس موجود تھا۔  تو اس نے سمجھا کہ اس علاقے میں اس دور میں  احتجاج سے ذیادہ مسلحہ جدوجہد کامیاب ہوگی تو اس نے گوریلہ کاروائیوں کیزریعے اھداف تک رسائی حاصل کر نے کی کوشش کی ۔ جبکہ باچا خان نے پلین اور سیٹلڈ ایریا میں عدم تشدد پر کاربند حکمت عملی کیزریعے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ باقی نظریہ ایک ہی تھا ۔ سامراج سے آزادی ۔

یہ جو ظلم کا خاتمہ ،ازادی اور امن جو ہم مانگ رہے ہیں ۔ یہ پہلی دفعہ صرف ہم نہیں مانگ رہے ہیں ۔ بلکہ دنیا کے تمام مظلوم قوموں نے وقتاً فوقتاً یہ کام کیا ہے ۔ آزادی انسان کی ایک فطری خواہش ہوتی ہے ۔ man is born free but he is everywhere in chains
انسان کو یہ زنجیریں اللہ نے نہیں پہنائی ہے بلکہ قابض اور ظالم نظام نے ان کی یہ حالت کردی ہے ۔

تمام انسان اندر سے ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ چاہے گورا ہو یا کالا ، پشتون ہو یا افریقن ہو ۔ تمام انسانوں کو درد اور تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔ تمام انسانوں کو روٹی اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے چاہے وہ عیسائی ہو یا مسلمان ہو ۔ ہر انسان کو اپنی عزت پیاری ہوتی ہے ۔ یہ فطرت نے ان کو ودیعت کر دی ہے ۔  اس طرح ہر بندہ چاہتا ہے کہ ان کی جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت ہو ۔ اسی طرح ہر انسان امن و سلامتی چاہتا ہے ۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ کوئی ان کو اغوا کریں ، قتل کریں یا ان کو غلام بنایا جائے ۔

لہذہ دنیا میں امن ، عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے اور ظلم کے خاتمے کے لئے تمام پیغمبروں کے کام میں یہ بات مشترکہ تھی کہ انسانوں کو ان کا جائز حق دلایا جائے

آدم ع جس نظریہ کی پرچار کرتے تھے۔  نوح ع  بھی اسی نظریے پر کام کرتے تھے یعنی ظلم سے نفرت اور عدل و مساوات کا قیام ۔

اسی طرح موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تو ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کے خلاف

یوسف علیہ السلام نے مصر کے استحصالی نظام کو ختم کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کے ظلم پر مبنی نظام کو   ۔

تمام پیغمبروں نے انسان کو انسان کی غلامی سے نکالا یعنی زمینی خداؤں اور ظالم سامراجی اور طاغوتی قوتوں سے انسان کو آزاد کرواکر فطرت اور قدرت کے قریب تر کر دیا ۔

نیلسن منڈیلا اپنے ساتھ کوئی نیا نظریہ نہیں لیکر آئے بلکہ پہلے سے موجود ایک پارٹی افریقن نیشنل کانگریس کا حصہ بن کر جدوجہد شروع کی ۔ اور قابض حکمرانوں کے ظلم پر مبنی نظام کے خلاف ڈٹ گئے ۔ اور قوم کو آزادی دلائی ۔

یہ ان کا اپنا بنایا ہوا نظریہ نہیں تھا بلکہ اس دنیا میں پہلے سے موجود نظریہ پر انہوں نے کام کیا ۔

هم دنيا کي تمام آزادی کی تحریکوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی اخلاقی حمایت کا اعلان کرتے ہیں ۔ تمام آزادی پسند اور انقلابی لیڈروں کیلئے دل میں قدر و منزلت رکھتے ہیں ۔ اور ان کے اچھے کاموں سے اور غلطیوں سے سکھتے ہیں ۔

کوئی بھی نظریہ فرد واحد نہیں بناتا بلکہ سائنسی اصول بھی یہ ہے کہ بہت سارے physical or social scientists دنیا میں پہلے سے موجود نظریات کو بنیاد بناکر اس پر آگے کام کیا جاتاہے ۔ اور اس کے لئے پہلے سے موجود کتابوں کا مطالعہ لازمی ہوتا ہے ۔ اور ان کتابوں کا ریفرنس دینا بھی ضروری ہوتا ہے ۔  لہذا ایک فرد واحد اگر یہ دعویٰ کریں کہ دنیا میں پہلے سے موجود نظریات اور کتابوں کو پڑھے بغیر وہ اپنی پیٹ سے ایک نیا نظریہ جنم دے گا تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے ۔ یا ان کی بہت بڑی لاعلمی ہے  اور یہ بندہ تاریخی غلطی کا مرتکب ٹہر رہا ہے ۔

ہم دنیا کے تمام انقلابی لیڈروں ،اور  اچھی کتابوں بشمول قرآن سے رہنمائی لیتے ہیں ۔ اور سکھنے کا یہ عمل جاری رہے گا ۔

پشتون تحفظ موومنٹ بھی ابھی  کوئی نیا نظریہ نہیں بنا رہا اور نہ پشتون تحفظ موومنٹ کوئی فرقہ ہے ۔ بلکہ پشتون بہت بڑی قوم ہے ۔ جس میں ہر طبقے اور مکاتب فکر کے لوگ شامل ہیں ۔ اور 2018 سے اسی ایک  نظریہ پر  جمع ہے کہ قوم کو اس ظلم سے اور سامراج سے نجات دلایا جائے ۔  حکمت عملی وقت کے ساتھ چینج ہوسکتی ہے اور اہداف و اعراض و مقاصد   میں اضافہ ہوسکتا ہے  ۔

مزید رہنمائی کے لئے آپ سوال کرسکتے ہیں ۔ اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کیجئے
شکریہ !
ازقلم سعید انور داوڑ

Comments

Popular posts from this blog

Government of Pakistan offers dialogue with PTM

جنگ آزادی کے عظیم ہیرو اور بانی پشتونستان حاجی مرزالی خان المعروف فقیر ایپی

وزیرستان کے موجودہ حالات خصوصاً تعلیمی حالت