جنگ آزادی کے عظیم ہیرو اور بانی پشتونستان حاجی مرزالی خان المعروف فقیر ایپی

جنگ آزادی کے عظیم ہیرو اور  بانی پشتونستان #حاجی #مرزالیخان المعروف #فقیرایپی :

تحریر  ؛ سعید انور داوڑ

              19ویں اور 20ویں صدی میں برطانیہ نے پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کیا تھا ۔ تاج برطانیہ پر کسی وقت بھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اور فوجیں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی ۔ لیکن اس وقت وزیرستان کے پشتونوں نے اپنی وقت کے سب سے بڑی سلطنت و فوج اور ان کے جدید ترین ٹیکنالوجی کا روایتی ہتھیاروں سے زبردست مقابلہ کیا ۔ وزیرستان کے پشتون اس بڑی سامراج کے آگے دیوار بند کر کھڑے ہوگئے اور فرنگی سامراج کو بڑا ٹف ٹائم دیا ۔ کیونکہ یہاں کے پشتون غلامی کی زندگی سے آزادی کی موت کو ترجیح دیتے تھے ۔ ان پشتونوں کی قیادت جو شحصیت کر رہے تھے اس عظیم قائد کانام حاجی مرزالی خان المعروف فقیر ایپی ہے ۔ وہ صرف ایک عسکری زحمت کار اور آزادی پسند ہی نہ تھے بلکہ ایک عظیم قوم پرست لیڈر بھی تھے جنہوں نے 1947 تک انگریز فوج سے برسرِ پیکار رہنے کے بعد 1951 میں پشتونستان کی بنیاد رکھی ۔ 1947 میں آپ نے پاکستان کو اس وجہ سے قبول نہیں کیا کیونکہ آپ کے بقول ہم جس نظام ظلم کے خلاف لڑ رہے تھے ، پاکستان میں ابھی بھی وہی سامراجی نظام قائم ہیں اور  قوموں کو آزادی حاصل نہیں ہوئی ہے لہذا جدوجہد جاری رہے گی ۔

                 فقیر ایپی حاجی مرزالی خان 1897 کو شمالی وزیرستان میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کانام ارسلا خان تھا ۔ فقیر ایپی نے 1930 سے لیکر 1947 تک انگریزوں کے خلاف مزاحمتی جنگ جاری رکھی اور انگریز فوج کی ناک خاک میں ملائے رکھی ۔ ایک دفعہ 40 ہزار برطانوی فوج بھی ان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کم تعداد کے باوجود بھی وہ انگریزوں کے خلاف کامیاب رہے ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پہاڑی علاقے میں آپ اور آپ کا لشکر گوریلا کارروائیوں کے ماہر تھے ۔ دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ آپ نے مقامی پشتونوں کے دلوں میں جگہ بنائی تھی ۔ آپ نے اپنے لوگوں کے دل جیت لئے تھے ۔ جہاں انگریزوں کے لئے اتنے سخت تھے وہاں اپنے پشتونو کے لئے اتنے ہی نرم اور پیار کرنے والے تھے ۔ آپ کے لشکر کے سپاہیوں نے کبھی کسی پشتون بھائی کو کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں پہنچایا ۔ آپ نے ایپی گاؤں میرعلی میں کافی ٹائم گزارا ۔ آپ کا مسجد ایپی گاؤں میں ابھی بھی موجود ہے ۔ طبیعت کے لحاظ سے آپ انکسار اور درویش صفت انسان تھے ۔ مظلوموں کی ہمیشہ مدد کیا کرتے

ت اور ظلم کے سخت خلاف تھے ۔








        حصول تعلیم کے سلسلے میں آپ بنوں میں تھے کہ اس دوران اسلام بی بی کا واقعہ پیش آیا ۔ مارچ 1936 میں ایک ھندو لڑکی رام پوری نے بنوں کے ایک پشتون لڑکے نور علی شاہ سے شادی کی ۔ انگریزوں نے روایتی تعصب سے کام لیتے ہوئے وزیرستان اور بنوں کے قبائل پر دباؤ ڈالا کہ لڑکی واپس کر دے ۔ قبائل نے کہا کہ لڑکی اپنی مرضی جرگے کے سامنے خود بتائیں اگر لڑکی خود واپس نہ جانا چاہے تو ہم آپ کے دباؤ پر واپس نہیں کریں گے ۔ مگر انگریزوں نے اس وقت کے چند گل خانوں کی مدد سے لڑکی کو اغوا کیا اور انگریز ڈپٹی کمشنر نے دلہا نور علی شاہ کو گرفتار کرکے ناجائز سزا دلوائی ۔  اس واقعے پر وزیرستان میں آگ بھڑک اٹھی اور انگریزوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ۔ حاجی مرزالی خان اس واقعہ پر خاموش نہیں رہ سکے اور بنوں سے اپنے مسکن میرعلی ایپی چلے گئے اور قوم کو اپنے عزائم سے آگاہ کیا ۔ قوم کو اعتماد میں لینے کے بعد انگریز سامراج کے خلاف اعلان جنگ کیا ۔ اس کے بعد خیسور منتقل ہو کر انگریزوں کے خلاف صف بندی کا اعلان کیا ۔ بہت جلد پورے وزیرستان سے پشتون آپ کے قیادت میں جمع ہوگئے ۔ ادھر انگریز ضلعی انتظامیہ یعنی پولیٹیکل ایجنٹ نے ان کے گھر بار جلا دئیے اور آپ کا گھر مسمار بھی کیا ۔ ۔ آپ کے لشکر میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا ۔ آپ کے لشکر میں ایسے بہادر سپوت تھے جن کی بہادری کی داستانیں بڑی مشہور ہوئی ان میں ایوب نواز ممش خیل ، شادی خیل داوڑ ، محمد امین خان حسن خیل ، رب نواز ، مہردل خٹک ، فضل استاد جی ، لالہ دادا داوڑ ، خلیفہ گل نواز اور بہت سارے شامل ہیں ۔  حاجی مرزالی خان کا پشتونوں کا یہ لشکر بنوں ، لکی ، کوہاٹ ، کرم ، اورکزی ، افغانستان ، ٹانک ، ژوب ، لورالائی ، خیبر ، باجوڑ اور مہمند تک پھیل گیا ۔ اور حاجی مرزالی خان کی مزاحمتی کاروائیوں نے شمالی وزیرستان میں انگریزوں پر زندگی تنگ کر دی ۔ انہوں نے فوجی دستوں پر حملے جاری رکھیں اور سامراجی ظالم فوج کو زبردست مالی و جانی نقصان پہنچایا ۔ انہوں نے بہت سارے محازوں پر انگریز فوج کا سامنا کیا ۔ اور کامیاب مقابلہ کیا ۔

                پاکستان بننے کے بعد آپ نے کہا کہ ہماری جدوجہد ختم نہیں ہوئی ۔ کیونکہ یہ وہی آزادی نہیں ہے جس کے لئے ہم لڑ رہے تھے ۔ آپ پشتونوں کے لئے عدل پر مبنی نظام اور خپلواکی چاہتے تھے ۔ آپ نے کہا کہ پاکستان سامراج کا تسلسل ہے ۔ اس لئے پاکستان کو قبول نہیں کیا اور 1951 میں پشتونستان کی بنیاد رکھی۔  جس میں چترال سے لیکر وزیرستان تک تمام پشتون علاقوں کی نمائندگی شامل تھی ۔ آپ نے سرخ و سیاہ رنگ پر مشتمل پشتونستان وطن کا اپنا  قومی جھنڈا بلند کیا ۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو خطوط لکھیں کہ ریاست پشتونستان کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے ۔ آپ نے افغانستان کے لوگوں اور حکومت سے برادرانہ و دوستانہ تعلقات قائم کئے رکھے آپ ہمیشہ افغانستان کو مضبوط دیکھنا چاہتے تھے ۔
            جنگ آزادی کے اس عظیم ہیرو کو دمہ کی بیماری لاحق ہوگئ جو جان لیوا ثابت ہوئی ۔ اور 16 اپریل 1960 کو اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے ۔ اور پشتون قوم اس عظیم شخصیت سے محروم ہوگئ ۔

#سعیدانورداوڑ


پوسٹ آگے شئیر کریں تاکہ ہمارے پشتون جوان آپنے اصل جنگ آزادی کے ہیرو سے باخبر ہو جائے ۔ کیونکہ سکول کی کتابوں میں پشتونوں کے عظیم قائدین کا ذکر نہیں ہے

Comments

Popular posts from this blog

Government of Pakistan offers dialogue with PTM

وزیرستان کے موجودہ حالات خصوصاً تعلیمی حالت