وزیرستان کے موجودہ حالات خصوصاً تعلیمی حالت
وزیرستان کے موجودہ حالات ( تعلیمی حالت
ویسے وزیرستان کے تو بےشمار مسائل ہیں ۔بلکہ وزیرستان کو لوگ اج کل مسائلستان کے نام سے پکارتے ہیں ۔ دنیا کا ہر ظلم وزیرستان کے لوگوں کے ساتھ روا رکھا گیا ۔ دہشتگردوں کے مظالم سے لیکر آپریشن ضرب عضب تک اور آپریشن کے بعد کے ٹارگٹ کلنگ و خوف و ہراس ، چیک پوسٹوں پر ناروا سلوک ، کرفیو وغیرہ ایک بہت لمبی داستان ہیں ۔ آج کے اس پوسٹ میں وزیرستان کے تعلیمی حالت پر مین فوکس کروں گا ۔ اور وزیرستان کے حالات
خصوصاً تعلیم کا ملک کے دیگر علاقوں سے موازنہ پیش کرونگا ۔
وزیرستان کے موجودہ حالات جیل سے بھی بدتر ہے ۔ کیونکہ جیل میں ٹھیک ٹھاک بجلی بھی ہوتی ہے اور انسان محفوظ بھی رہتا ہے ۔ لیکن وزیرستان میں نہ بجلی ہے ، نہ گیس ہے اور نہ لوگوں کی زندگیاں محفوظ ہیں ۔ جو چند مقامات پر موبائل فون ٹاور لگے ہوئے تھے ۔ ان کو بھی ظالموں نے بموں سے اڑایا ہیں ۔ وزیرستان کو اس لیے بھی جیل سے نسبت دیا گیا کہ دونوں میں داخل ہونے کے لئے سکورٹی فورسز کے گیٹ سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اگر آپ پشاور ، ڈی آئی خان اور بنوں سے آ کر سیدگی چیک پوسٹ کے راستے سے جیسے ہی وزیرستان میں داخل ہوجاتے ہیں تو سب سے پہلا کام جو آپ کے ساتھ ہوتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ پوری دنیا سے آپ کا رابطہ منقطع ہوجاتا ہے ۔ 21ویں صدی میں جہاں دنیا نے بہت ذیادہ ترقی کی ہے وہاں وزیرستان میں ابھی تک تھری جی فور جی تو دور کی بات ہے ۔ سادہ موبائل بھی کام نہیں کرتا ۔ جن خوش نصیبوں کو صرف پی ٹی سی ایل کی اور وائی فائی کی سہولت حاصل ہے ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔ جبکہ اکثریت اس سہولت سے محروم ہیں ۔ حالیہ دنوں میں کرونا وبا کے پیش نظر حکومت پاکستان نے ان لائن اور ٹیلی کلاسز کا اجراء کیا ہیں لیکن وزیرستان کے لڑکے اس سے بھی مستفید نہیں ہو سکتے ۔ ہم نے کئ دفعہ تھری جی فور جی کے فراہمی کے لیے احتجاج بھی ریکارڈ کیا لیکن حکومت ٹھس سے مس نہیں ہو رہی ۔
تعلیم کی حالت ایسی ہے کہ ہمارے وزیرستان کے اکثر سکول ٹیچرز صرف میٹرک پاس ہیں اور کچھ نے نقل کرکے ڈگریاں حاصل کی ہے ۔ انگلش ان کو ٹھیک طرح سے آتی نہیں ۔ اور ایسے اساتذہ کو بھی میں جانتا ہوں جو اردو بھی ٹھیک طرح سے نہیں بول سکتے ۔ ۔ جس کے پاس خود علم نہ ہو وہ دوسروں کو کیا علم منتقل کریں گے ۔ وزیرستان کے سکولوں کے اساتذہ جد ید ٹیچنگ کے طریقہ کار سے نابلد ہیں ۔ پرائیویٹ سکولوں میں ٹیچرز کو اتنی کم تنخواہ دی جاتی ہیں کہ اعلیٰ کوالیفائیڈ ٹیچر اتنی کم تنخواہ پر جاب کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ نتیجتاً وہاں بھی نالائق اور کم پڑھے لکھے اور ناتجربہ کار لوگ پڑھانے جاتے ہیں ۔اس کا مطلب ہے کہ وزیرستان میں معیاری تعلیم (کوالٹی ایجوکیشن) نہیں دی جاتی ہے
ایک دوسرا سنجیدہ مسلے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ وزیرستان میں چند نجی سکولز میٹرک کے بورڈ امتحان میں باقاعدہ نقل فراہم کرنے کے 5000 سے لیکر 10000 تک فی طالب علم پیسے لیتے ہیں ۔ میرعلی کے کچھ نجی سکولز تو میٹرک کے امتحان میں سب سے ذیادہ نقل کی فراہمی کے لئے بہت مشہور ہیں ۔ وزیرستان دنیا میں واحد جگہ ہے جہاں پہ نقل کو برا نہیں سمجھا جاتا ۔ باقی مہذب دنیا میں چٹنگ کرنا بہت شرم کی بات سمجھا جاتا ہے ۔ نقل کے ذریعے ہمارے لڑکے محض کاغذ کا ایک ٹکڑا (جسے سرٹیفیکیٹ کہتے ہیں) تو حاصل کرتے ہیں لیکن علم سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ اصل شے علم ہیں ۔ کاغذ کی ڈگری نہیں ۔ میرا ایک دوست ہے اس نے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر ایم اے پولٹیکل سائنس کیا ہوا ہے ۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ پولٹیکل سائنس کیا ہوتا ہے ؟ تو اس نے کہا کہ پتہ نہیں۔ وہ خود مانتا ہے کہ انہوں نے میٹرک سے لیکر ایم اے تک
تحانات نقل کرکے پاس کئے ہیں ۔
ایک مسلہ یہ بھی ہے کہ وزیرستان کے بہت ذیادہ قابل لڑکے
جیسے ہی پانچویں جماعت تک یا آٹھویں جماعت تک پہنچ جاتے ہیں تو اس کے والدین ان کی شادی کر دیتے ہیں ۔ پھر ان کے بچے پیدا ہوجاتے ہیں پھر میٹرک کے بعد اس کو تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور بیچارہ سعودی عرب یا امارات میں مزدوری کرنے چلا جاتا ہے اور اس طری وزیرستان کا ٹیلنٹ اور اعلیٰ دماغ ضائع ہو جاتا ہے ۔
تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ وزیرستان میں زیادہ تر والدین ان پڑھ ہوتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کے تعلیم پر صحیح توجہ نہیں دے سکتے ۔ رہی بات لڑکیوں کی تعلیم کی تو وہ تو نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ہمارے گاؤں کی دس ہزار آبادی ہے ۔ ان میں ساڑھے 5 ہزار عورتیں ہیں ۔ ان ساڑھے پانچ ہزار عورتوں میں پانچ ہزار سے زیادہ ان پڑھ ہے ۔ جبکہ پشاور جہاں ہم رہ رہے ہیں وہاں سارے خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔ باقی دنیا سے ہم کتنے پیچھے ہیں یہ آپ خود ہی سوچ لیں ۔ وزیرستان میں اس 21ویں صدی میں بھی آپ کو ایسے لوگ ملیں گے جو لڑکیوں کی تعلیم کو برا سمجھتے ہیں ۔
آخری اور سب سے اہم وجہ جس کی وجہ سے وزیرستان کی یہ حالت ہیں وہ ہے ریاست کا کردار ۔ دوستوں ریاست کی حثیت ایک ماں کی طرح ہوتی ہیں ۔ لیکن ہماری ریاست ماں کا کردار نہیں بلکہ دشمن کا کردار اداکر رہی ہے ۔ گزشتہ 70 سالوں میں وزیرستان کے ساتھ جو برتاؤ کیا گیا وہ آپ سب کے سامنے ہیں ۔ تاریخ نے ایک ایک چیز کو محفوظ کیا ہے ۔ ریاست کا رویہ لاہور کے لئے الگ ہے اور وزیرستان کے لئے الگ ۔ کیا آپ کو معلوم ہیں کہ لاہور میں کتنی یونیورسٹیاں ہیں اور وزیرستان میں کتنی ہیں ؟ لاہور میں 29 یونیورسٹیاں ہے جبکہ پورے فاٹا میں صرف ایک یونیورسٹی ہے وہ بھی ابھی ابھی بنی ہوئی ہے اور نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ لاہور میں ان 29 یونیورسٹیوں کے علاوہ بہت سارے میڈیکل کالجز ، انجینئرنگ کالجز الگ ہیں ۔ اس کے علاوہ دوسرے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی بہت لمبی لسٹ ہیں ۔ اگر ریاست پاکستان چاہتی تو 2 یا 3 یونیورسٹیاں وزیرستان میں بھی قائم کرتی لیکن انہوں نے یہاں بڑے بڑے طالبان مراکز بنائے جو تعلیم کے دشمن تھے ۔ اور سینکڑوں گرلز سکولوں کو بموں سے اڑایا گیا ۔ یہ سب کچھ ریاست کی سرپرستی میں کیا گیا ۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں سکورٹی فورسز سب سے زیادہ طاقتور ہیں اور اج کل فوج وزیرستان عملی طور پر ان کے کنٹرول میں ہیں ۔ اگر آج یہ اعلان کریں کہ تمام اساتذہ صحیح طریقے سے ڈیوٹیاں دینا شروع کرے تو مجال ہے کہ کوئی ٹیچر غیر حاضری کریں لیکن وہ یہ نیک کام کبھی نہیں کریں گے ۔ یہ وزیرستان میں باقی سارے وہ کام کرتی ہیں جس سے ان کو فایدہ ہو ۔ مثلاً سڑکیں بنانا ، معدنیات نکالنا ، سول انتظامیہ کے کام میں مداخلت کرنا ، لوگوں کو سزائیں دینا وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اگر آپ ان کو یہ کہیں کہ تعلیم کو بھی ٹھیک کرو تو بولیں گے کہ یہ فوج کا کام نہیں ہے ۔
دوسری طرف ہمارے اکثر ملکان خود بھی ان پڑھ اور انگوٹھا چاپ ہیں ۔گزشتہ 7 دہائیوں سے قوم کو تعلیم دینا ان کے ترجیح میں شامل نہیں ہے ۔
لہذہ میں نئی نسل سے اپیل کرتا ہوں کہ انفرادیت سے نکل کر اجتماعیت کی طرف آکر وزیرستان کے ان غریب بچوں اور بچیوں کو بھی سکولوں میں داخل کروانے کے لیے آواز بلند کرو جو غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ۔
جو ٹیچرز تنخواہیں تو لے رہے ہیں مگر ڈیوٹیاں نہیں کر رہے ہیں ان کے خلاف مہم چلائی جائے
نقل کے خاتمے کے لئے زبردستی شعوری مہم چلائی جائے ۔
تعلیم یافتہ نوجوان اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلباء اپنے اپنے گاؤں میں فری ٹیوشن سنٹرز کھل لیں ۔
اگلے کالم میں وزیرستان کے ہسپتالوں کے مسائل ، خواتین کے حقوق و مسائل اور دیگر مسائل پر تفصیلی مضمون لکھوں گا ۔ کمنٹ میں اپنی راۓ سے آگاہ کریں یا کوئی سوال ہو تو کر سکتے ہیں ۔ شکریہ
#سعیدانورداوڑ
Comments
Post a Comment