Posts

Showing posts from May, 2020

نظریہ دوسرا حصہ

تحریر ؛ سعید انور داوڑ یہ ایک حقیقت ہے کہ نظریہ پیٹ سے نہیں بنتا بلکہ پہلے سے موجود نظریہ پر کام کرکے وقت کے تقاضوں کے تقاضوں کے  مطابق بنایا جاتا ہے ۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے نظریات ارتقائی مراحل سے گزر چکے ہیں اور پھر ہم تک پہنچے ہیں ۔  دوسرا یہ کہ نیا نظریہ ایک باطل نظریہ کے ضد میں وجود میں آتا ہے ۔ جیسا کہ اشتراکیت کا نظریہ سرمایہ دارانہ نظام کے ردعمل میں وجود میں آیا تھا ۔ پی ٹی ایم تو خود سامراجیت کے ردعمل میں ایک بنیادی نیشنلسٹ انقلابی نظریہ ہے ۔ دوسرا پی ٹی ایم جس نظریہ کے بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے وہ حق پر مبنی نظریہ ہے ۔ اب پی ٹی ایم کے ردعمل میں تو کوئی نظریہ بن نہیں سکتا اور اگر پی ٹی ایم کے خلاف کوئی نظریہ لائے گا تو وہ ایک باطل اور ظالم نظریہ ہوگا ۔ پہلے کالم میں عرض کیا تھا ۔ کہ پی ٹی ایم کوئی نیا نظریہ نہیں لیکر آئی ہے ۔ بلکہ یہ تسلسل ہے پشتون قوم کے ہر سامراج کے خلاف پشتون قوم کو غلامی ، جبر اور زوال سے نکالنے کیلئے ہر دور کے ہر  سامراج کے خلاف  فکر و عملی جدوجہد  کا ۔ اسی نظریے کے تحت خوشحال خان ، پیر روشان ، میرویس خان ، فقیر ایپی وغی...

نظریہ ہر روز نیا نہیں بنتا

تحریر؛ سعیداانور داوڑ کچھ محترم دوستوں کا خیال ہے کہ پشتون تحفظ مومنٹ کے لیے یا پشتون قوم کے لیے وہ کوئی نیا نظریہ بنا لیں گے  ۔ تین چیزوں میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے ۔ ١۔ نظریہ ٢۔ تنظیم ٣۔اہداف ۴۔ حکمت عملی یاد رہے ۔ تنظیم پہلے نہیں بنتا ۔ بلکہ تنظیم بننے سے پہلے ساتھی ایک نظریہ اپنا لیتے ہیں ۔ اور پھر اس نظریہ کی بنیاد پر ایک تنظیم تشکیل دی جاتی ہے ۔ یہ نظریہ پہلے سے سوسایٹی میں پنپ رہا ہوتا ہے ۔ یہ یکدم انسان کے دماغ میں نہیں اتا بلکہ وہ اہستہ اہستہ اپنے بڑوں سے ، کتابوں سے ، تعلیمی اداروں سے ، سکول کالج و یونیورسٹی کے اساتذہ سے ، اپنے دوستوں سے اور ماضی کے تحریکات سے سکھتا رہتا ہے ۔ ان میں بنیادی طور پر دو قسم کے نظریات ہوتے ہیں  ۔ ایک ظلم پر مبنی نظریہ جیسے فرغون اور سامراج کا نطریہ جبکہ دوسرا انسانی فطرت کا نظریہ عدل کا نظریہ ۔ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ سلیم لفطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ لیکن جب وہ ایک غلام معاشرے میں  پیدا ہوتا ہے ۔ تو پھر یہ غلام معاشرہ اور  ظالم سماج اس کا سلیم لفطرت طبیعت بدل کر اس کے ذہین میں غلط نظریات و تصورات ڈال دئیے جاتے ہیں...

پشتون قوم کی سیاسی،سماجی اور معاشی زوال کےو جوہات دوسرا حصہ

حصہ دوم ؛ پشتون قوم / پشتون سوسائٹی کی زوال کے وجوہات ؛ تحریر ؛ سعید انور داوڑ پچھلے حصے میں پشتون قوم کی سماجی ، تعلیمی ، معاشی اور اخلاقی انحطاط پر تفصیلی بات کی تھی ۔ آج ہم ان عوامل اور اسباب پر روشنی ڈالیں گے جس کی وجہ سے پشتون قوم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں پیچھے رہ گئ ہے ۔ اس بات کا بھی ذکر کریں گے کہ اس زوال اور پسماندگی کے زمہ دار کون ہے ۔ کس کس کا ہاتھ ہے پشتون قوم کو پسماندہ رکھنے میں ۔ دوستوں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے پڑوس میں ایک ملک ہے چین ۔ 1948 سے پہلے وہ بھی ہماری طرح زوال کا شکار تھا ۔ اس وقت چینی سوسائٹی افیمی سوسائٹی کہلاتی تھی ۔ چین میں سخت بیروزگاری تھی ۔ لوگ افیم کھا کر فٹ ہاتھوں، خشک ندی نالوں اور گلی کوچوں میں پڑے رہتے تھے ۔ ہر طرف غربت و جہالت تھی ۔ لیکن پھر وہاں چیئرمین ماؤ کی سربراہی میں انقلاب آتا ہے ۔ اور چند سالوں کے اندر اندر چین کا پورا نقشہ بدل جاتا ہے ۔ یورپ اور امریکہ نے ڈھائی سو سال میں جو ترقی کی تھی ۔ ترقی کا یہ سفر چین نے محض 40 سال میں طے کیا اور انقلاب لانے کے 40 سال بعد وہ امریکہ اور یورپ کے برابر آگیا ۔ آج دنیا کی بڑی بڑی طاقتی...

پشتون سوسائٹی سماجی اور احلاقی زوال سے دوچار ہے

کچھ اپنے بارے میں اپنے قوم کے بارے میں سچ لکھوں گا تو آپ برا تو نہیں منائیں گے  ۔ مجھے گالیاں تو نہیں دوں گے ؟ ۔ تحریر ؛ سعیداانور داوڑ میں پشتونوں کے لئے بہت فکرمند ہوں ۔ مہذب دنیا نے بہت ترقی کی ہیں ۔ وہاں انسانیت کی بہت قدر و منزلت ہیں ۔ مگر بدقسمتی سے پشتون ایک دوسرے کو مارتے رہتے ہیں اور  بے اتفاقی کے شکار ہوچکے ہیں ۔ ایک دوسرے کا اخترام ، پیار و محبت ، شفقت اور نرم لہجہ ختم ہو چکا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے کہ ایک انسان کا قتل گویا ساری انسانیت کے قتل کے برابر ہیں ۔ اسلام ہمیں بھائی چارے اور ترقی کا درس دیتا ہے ۔ لیکن ہم فتنہ و فساد کی طرف چلے گئے ہیں ۔ میری باتیں تلخ ضرور ہیں ۔ لیکن یہ ایک حقیقی مرض کی تشخیص ہے ۔ ہمارے معاشرے کے یہ امراض اس وقت دور ہوسکیں گے ۔ جب ہم اس پر کھل کر بات کریں گے ۔ اگر چھپ رہیں گے تو مرض بڑھتا جائے گا ۔ اور سوسائٹی مکمل طور پر  collapsed ہو جائے گی ۔ اصلاحات لانا وقت کا تقاضا ہے ۔ This is high time to bring reforms in pashtun society . اگر پشتون قوم کی خامیوں اور اندرونی مسائل پر نہیں لکھا گیا تو ان کی اصلاح کا کوئی راستہ نہیں نکل س...

ایک نہیں ہے ، دو پاکستان ہیں یہاں

Image
#ایک_نہیں_دو_پاکستان تحریر ؛ سعید انور داوڑ اس تحریر کو غور سے پڑھیں ۔ اس میں میں نے یہ دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ یہاں ایک پاکستان نہیں ہے بلکہ دو پاکستان ہیں ۔ ایک پاکستان وہ ہیں جہاں پہ کسی چیز کی کمی نہیں ہے ۔ اور زندگی کے تمام سہولیات دستیاب ہیں ۔ جبکہ دوسرا پاکستان عام عوام ، غریبوں ، مقتولوں ،  پشتونوں ، بلوچوں غداروں اور مسکینوں کا پاکستان ہیں ۔ کیا اس ایک جھنڈے کے تلے یہ دو پاکستان ساری زندگی ایک ساتھ رہیں گے  یا ایک دوسرے سے راستہ الگ کریں گے ؟ آئیں دونوں پاکستان کا تفصیل سے الگ الگ جائزہ لیتے ہیں ۔  #پاکستان_نمبر1 ایک پاکستان وہ ہے جہاں خوبصورت پکی سڑکوں اور صاف ستھرے پارکوں کے درمیان تمام سہولیات جیسے 24 گھنٹے بجلی گیس ، ٹیلی فون ، انٹرنیٹ ، پینے کا صاف پانی کے پلانٹس ،صحت و تعلیم کے مراکز  ، کشادہ گلیاں اور  سڑکیں ، شاپنگ سنٹرز ، اور سکورٹی کا جدید انتظام  سے آراستہ  فوجی چھاؤنیاں ، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز  ، فوجی رہائشی سوسائٹیاں ، فضائیہ اور بحریہ ٹاؤن ، عسکری رہائشی و کمرشل ایریاز ، عسکری 6 ، لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی ، کیپیٹ...

سپین وام اندوہناک واقعہ

Image
#سپین_وام_واقعہ_کا_تفصیل : کل شمالی وزیرستان کے  تحصیل سپین وام گاؤں زرگری حسن خیل  خدر خیل سے پاکستان کے سکیورٹی اداروں اور ایف سی بیٹنی رائفل  نے بہت سارے جوانوں کو اٹھا کر اپنے قلعے منتقل کیا تھا ۔ شام کے وقت خبر آئی کہ ان زیر حراست معصوم لوگوں میں بحت ن اللہ سکورٹی فورسز کے تشدد کی وجہ سے شہید ہوا ۔ اور فوجی حکام نے حکم دیا ہے کہ انہیں فوری طور پر دفن کیا جائے لیکن شہید بحت اللہ کے گھر والوں نے کہا کہ ہم کل اس کا جنازہ کریں گے . تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں ۔ ټولو ملګرو ته خواست دی چې دسپين وام په پيښه دسوشل ميډيا د لاری اواز اوچت کړي۔ #سپین_وام_واقعہ_مایوس_کن_اپ_ڈیٹس ؛ انتہائی افسوس کی بات ہے ۔ کہ ہماری خون کی قیمت بڑی سستی ہوتی ہے ۔ ضلعی انتظامیہ، فوجی حکام اور ایف سی افسران نے سپین وام کے شہید بخت اللہ کے لواحقین کو جرگہ مشران و ملکان کیزریعے پیغام دیا ہے کہ شہید بحت اللہ کے خاندان کو 15 لاکھ خون بہا ، ایک عدد کلاس فور  نوکری اور ایک عدد پانی ٹیوب ویل واٹر سپلائی اسکیم فراہم کرے گی اس شرط پر کہ وہ منہ بند رکھیں گے...