وزیرستان اور سابقہ فاٹا میں طالبان کے آمد سے پہلے اور بعد کے حالات
تحریر : سعید انور داوڑ
دوسرا حصہ : تحریر آخر تک پڑھ لیں
#کیوPTMکےساتھ؟#WhyPTM ?
پہلے حصے میں میں نے وزیرستان، سابقہ فاٹا اور پشتون وطن میں لامحدود چیک پوسٹوں پر فوج اور ایف سی کی فرعونیت کا ذکر کیا تھا ۔ آج کی تازا خبر یہ ہے کہ شمالی وزیرستان ٹل کے قریب ایک چیک پوسٹ پر ایف سی والوں نے ایک نوجوان کو مار مار کے ان کی ایک انکھ نکال دی ہیں ۔
آج کے #دوسرےحصے میں میں ریاست پاکستان اور فوج کے ان مظالم کا ذکر کروں گا جو انہوں نے براہ راست آپریشن سے پہلے" #طالبان کیزریعے کروائے اور کس طرح پرامن اور ترقی پسند وزیرستان کو اندھیروں میں اور پتھر کے دور میں پہنچا دیا ۔ ہمارے اوپر کس طرح دھشت گردی کا لیبل لگایا دیا اور وزیرستان کے لوگوں اور پشتونوں کو کس طرح پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں کیسے بدنام کیا گیا "۔
دوستوں فوج نے ہمیں براہ راست جتنا نقصان پہنچایا اس سے کہیں زیادہ نقصان انہوں نے ہمیں اپنے proxies طالبان کے زریعے پہنچایا ۔
آپ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان فوج کے جنرل ضیاء الحق نے ڈالروں کے لئے ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پشتونوں کو امریکی مفاد کے لئے جہاد کے نام پر ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا ۔ امریکہ نے پاکستان کو اس جنگ کے لئے جتنے ڈالر دئیے اس سے پنجاب کو ترقی دی گئ ۔ پورے فاٹا میں ایک یونیورسٹی اور ایک میڈیکل کالج قائم نہیں کیا گیا ۔ پورے سابقہ فاٹا میں روزگار کے لئے ایک پروجیکٹ یا کارخانہ نہیں لگایا گیا ۔ میرانشاہ میں ایک ماچس کارخانہ اور ایک ووکیشنل ٹریننگ سینٹر قائم تھا اس کو بھی بند اور ختم کیا گیا ۔ #طالبان #امدسےپہلےوزیرستان؛ ہم اپنے آباؤ اجداد کے اس سرزمین پر 5000 سال سے آباد ہیں ۔ ہم ایک rich culture اور تاریخ رکھتے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے ہمارے آباؤ اجداد کبھی بھی مذہبی انتہا پسند اور دہشت گرد نہیں رہے ہیں ۔ ہمارے حجرے ( جامے ) ، ہمارے میلے ، ہمارے جرگے ، ہمارے نندارے اتنڑ تماشے ، اشر بگاڑے ، مہمان نوازی ، قومی ٹینگہ و اتفاق اور یتیموں اور بیواؤں کی مدد کا ایک پورا نظام تھا۔ ہم برطانیہ کی طرح ایک unwritten آئین رسم و رواج کے اندر زندگی گزار رہے تھے ۔ کوئی کسی کے ساتھ ذیادتی نہیں کر سکتا تھا ۔ گرچہ حکومت پاکستان نے ہمیں معاشی ترقی کے لیے صنعت و حرفت اور روزگار کے دوسرے مواقع فراہم نہیں کئے لیکن وزیرستان اور فاٹا کے غیور پشتونوں نے ہمت نہیں ہاری اور قطر ، متحدہ عرب امارات ، دوبئ ، سعودی اور یورپ میں محنت مزدوری کے لئے سالہاسال مسافری برداشت کرتے رہے اور ان پیسوں سے اپنے بچوں اور بچیوں کو پڑھایا ۔ میرعلی اور میرانشاہ کے بازار ایسے آباد ہوگئے تھے کہ بنوں، لکی حتیٰ کہ پنجاب سے لوگ سامان کی خریداری کے لیے آتے تھے ۔ غلام خان کے راستے افغان بھائیوں کے ساتھ تجارت اور کاروبار عروج پر تھا ۔ میرانشاہ ڈگری کالج ، گرلز ہائی سکول و گرلز کالج ، میرانشاہ کالونی modernization کے علامات تھے ۔ تفریحی سرگرمیاں و کھیل کود خاص کر فٹبال میں پورے صوبے میں میرانشاہ کا ثانی نہیں تھا ۔ شعر و شاعری ، میوزک اور اتنڑ کے پروگرام باقاعدگی سے منعقد ہوتے تھے ۔ ہر سال درجنوں لڑکے اور لڑکیاں ڈاکٹرز اور انجینئرز بنتے تھے ۔ دور دراز سے سیاح رزمک ، گورویک اور شوال دیکھنے کے لیے آتے ۔ لیکن 9/11 کے بعد ریاست پاکستان نے وزیرستان کا پورا image ہی بدل دیا ۔ یہ تو تھے طالبان کے آنے سے پہلے وزیرستان کے حالات ۔ اب ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح وزیرستان کا یہ تصویر بگاڑ دیا گیا ۔
#طابان #امد 9/11 بعد :
ریاست پاکستان اور پنجابی سامراج کو ہمارا امن ، تعلیم ، کاروبار اور ترقی ہضم نہیں ہوئی ۔ کیونکہ ان کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ اگر یہ سارے لوگ صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے تو ان کو ہم کبھی بھی کشمیر ، افغانستان اور کہیں اور جہاد اور غیرت کے نام پر استعمال نہیں کر سکیں گے ۔ لہذہ انہوں نے پورے پاکستان سے وزیرستان میں دہشت گردوں کو لاکر آباد کیا ۔ پھر افغانستان اور تورابورہ کے پہاڑوں سے اپنے proxies گوڈ طالبان کو وزیرستان لایا گیا ۔ کوئی مشر و ملک اگر ان کے خلاف بات کرتا تو پاکستان کے انٹیلیجنس ایجنسی والے اس کو فوراً قتل کر دیتے یا ڈرا دھمکا کر چپ کرا دیتے ۔ یہ طالبان پاکستان کے کہنے پر افغانستان میں ملی فوج پر حملے کرتے تھے ۔ اور پاڑہ چنار میں شیعہ سنی لڑائی میں بھی ملوث ہوتے تھے ۔ جن جن قبائلی عمائدین ، مشران ، ملکان ، صحافیوں ، قوم پرست جماعت کے مقامی رہنماؤں ، پروفیسروں اور جوانوں نے ان طالبان ، القاعدہ اور پاکستان کے دیگر proxies کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ان کو چن چن کر مارا گیا ۔
ہم پڑھے لکھے لوگ ہیں اور سیاسیات ( پولیٹیکل سائنس ) کے ادنیٰ طالب علم ہیں ۔ یہ ریاست کی اولین زمہ داری ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کو یقینی بنائے ۔لیکن یہاں الٹا ریاست نے وزیرستان کے لوگوں پر لازم کیا کہ فوج جن راستوں سے گزرتی ہیں وہاں عام عوام پوری رات ڈیوٹی دیں گے کہ فوج کے کانوائے کے راستے میں کوئی بم وغیرہ نہ رکھے اور اگر فوج کو کوئی نقصان پہنچا تو عام عوام ان کے زمہ دار ہونگے ۔ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ فوج کے گاڑی پر معمولی بم دھماکہ ہوا اور انہوں نے اس پاس کے گاؤں کے لوگوں بچوں ، بوڑھوں اور خواتین پر اندھا دھن فائرنگ کی اور بہت ساروں کو مار دیا یا گرفتار کر کے لاپتہ کیا ۔ تشدد تو عام سی چیز ہے ۔عام عوام ایک طرف طالبان سے مار کھا رہے تھے اور دوسری طرف فوج ان کو مار رہی تھی ۔ مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ اس ریاست نے ہمیں اپنا دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری بھی نہیں مانا ہیں ۔ پاکستان بچانے اور مضبوط کرنے کے لیے وزیرستان اور پشتونوں کو مارنا اور مروانا ان کے ہاں عین جائز ہے ۔ کیوں کہ یہ ہر سامراج کا مزاج ہوتا ہے کہ غریب عوام کا استحصال کریں اور پاکستان سامراجیوں میں بھی سب سے برا سامراج ہیں ۔ ریاست پاکستان نے طالبان کے زریعے وزیرستان کو موت کا کنواں بنا دیا ۔ ہر طرف خوف و دہشت کے بادل منڈلانے لگے اور چاروں طرف موت رقص کرنے لگی ۔ خواتین و حضرات گھروں تک محدود ہوگئے ۔ اور باھر طالبان نے آئی ایس آئی کی مدد سے parallel حکومت بنائی ۔ مشہور زمانہ حقانی نیٹ ورک کو میرانشاہ میں فوج کے بہت بڑے قلعے کے سامنے ایک بار پھر ان کے پرانے ٹھکانوں میں لایا گیا ۔ ضلعی انتظامیہ اور ڈی سی اپنے دفتر سے باہر نہیں نکل سکتے تھے ۔ حصہ دار فورس کو مار مار کر ان کا کمر توڑ دیا گیا ۔ یہ سب کچھ جب ہو رہا تھا تو اس پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی تھی ۔ پاکستان کے سیاسی و مذہبی پارٹیوں نے بھی اس پر آنکھیں بند کئے تھے ۔طالبان نے سب سے پہلے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی ۔ گرلز سکولوں کے سربراہوں ، اساتذہ اور والدین کو دھمکی آمیز خطوط لکھیں کہ لڑکیوں کو سکول بھیجنا بند کر دے ۔ اور بہت سارے سکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑا دیا ۔ ہزاروں کی تعداد میں وزیرستان کے مشران کو قتل کیا گیا ۔ اس کے بعد مقامی کاروباری شخصیات ، ڈاکٹروں اور دکانداروں پر بھتہ لگایا ۔اگر کوئی بھتہ دینے سے انکار کرتا تو ان کو جان سے مار دیا جاتا یا ان کے بچوں کو اغوا کیا جاتا ۔ طالبان ہمارے مشران پر حکومت کے لئے جاسوسی کا الزام لگا کر ذبح کرتے اور ان کے ہاتھ پیر کاٹ کر سڑک کے کنارے پھنک دیتے ۔ ان کا جنازہ نہیں پڑھا جاتا اور لوگ ڈر کے مارے اپنے پیاروں کے جنازوں کو ہاتھ نہیں لگا سکتے تھے ۔ جنازوں dead bodies کو تین تین دن تک درختوں کے ساتھ باندھ کر لٹکایا جاتا تھا ۔ بہت سارے لوگ ذہنی مریض بن گئے ۔ عام عوام چکی میں پسنے لگے ۔ فوج کی طرف سے پورے وزیرستان پر کرفیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جبکہ گوڈ طالبان کرفیوں میں بھی گھوم پھر سکتے تھے ۔ ایسے میں کمزور دل والے کچھ مقامی لوگ بھی ڈر کی وجہ سے طالبان کے ساتھی بن گئے ۔ اور کچھ معزز لوگ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ۔ ان کے گھروں پر طالبان نے قبضہ کرلیا ۔ بزرگ خواتین وحضرات یہ دیکھ کر ہاٹ اٹیک سے مر گئے ۔ ٹی وی اور ریڈیو پر مکمل پابندی عائد کردی ۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں تفریح و گانے بجانے کو مکمل طور پر بند کیا گیا ۔ بازاروں کو طالبان نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔ سرمایہ کاری روک گئ ۔ کاروبار ماند پڑ گئے ۔ طالبان اور انٹلیجنس ایجنسیاں سیاہ وسفید کے مالک بن گئے ۔ جرگہ سسٹم کو ختم کیا گیا اور مشران و ملکان کو لمبے بالوں والے سرکار نے replace کیا ۔ مقامی لوگوں کے تنازعات کے فیصلے طالبان کے ہاتھوں میں چلے گئے ۔ لوگوں کو ہر طرح سے مجبور کیا گیا کہ وہ طالبان کو جوائن کریں ۔ بغیر داڑھی والے آدمی insecurity کا شکار ہوگئے اور شریعت کے نام پر ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ سب لوگوں کو داڑھیاں رکھنے پر مجبور کیا گیا۔ ادھر ریاست پاکستان نے ٹی وی ، ڈرامہ ، موبائل sms اور آئی ایس پی آر کیزریعے وزیرستانیوں کے خلاف سخت پروفائلنگ شروع کیں اور تمام وزیرستانیوں کو بالخصوص اور پشتونوں کو بالعموم دھشت ڈیکلیئر کروایا ۔ ہم جہاں بھی جاتے اپنا شناختی کارڈ چھپا کے رکھتے ۔ دوران سفر جیسے ہی کوئی پولیس والا ہمارا شناختی کارڈ دیکھتا ہمیں گاڑی سے نیچے آنے کو کہتا ۔ پنجاب اور سندھ میں ہوٹل ملکان ہمارا کارڈ دیکھ کر کمرہ الاٹ کرنے سے انکار کرتے۔ پورے پاکستان کے لوگ حتیٰ کہ ہمارے اپنے پشاور مردان وغیرہ کے پشتون بہن بھائی ہم وزیرستانیو کو دہشت گرد سمجھنے لگے۔ شکر ہے پی ٹی ایم نے ہمارے دامن پر لگایا گیا یہ داغ دھو ڈالا اور کم از کم ہمارے اپنے پشتونو کو یقین ہوگیا کہ یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے کون ہیں ۔ اس لئے میں پی ٹی ایم کے ساتھ ہوں ۔
باقی 8 factors جس کی وجہ سے میں پی ٹی ایم میں ہو انیوالے کالم میں ذکر کروں گا ۔ اور next میں ضرب عضب پر تفصیلی روشنی ڈالوں گا ۔
#سعیدانورداوڑ
Comments
Post a Comment