آپریشن ضرب عضب ، پشتونوں کی معاشی، سماجی ، تعلیمی تباہی
پچھلے حصے میں ریاست پاکستان کے بنائے ہوئے proxies طالبان
کا وزیرستان اور فاٹا میں تباہ کاریوں کا ذکر کیا تھا ۔کہ کس طرح طالبان کو ملک کے طول و عرض سے لا کر وزیرستان میں آباد کیا گیا اور کس طرح مقامی لوگوں کو طالبان سے جانی ومالی نقصان پہنچایا گیا ۔ اس ساری بحث کیزریعے یہ بات بتانا مقصود ہے کہ ریاست نے پشتونو کو اتنا مجبور کیا کہ 2018'میں تمام پشتونو نے سڑکوں پر آکر ریاست کے خلاف ایک نعرہ مستانہ بلند کیا ور ایک مزاحمتی تحریک پی ٹی ایم شروع کی ۔
آج میں فوج کے وزیرستان کے خلاف براہ راست جنگ جس میں پوری سول ابادی گاؤں، شہر کو ملیامیٹ کیا گیا تھا یعنی #آپریشن #ضرب #عضب پر بات کروں گا ۔
2004 سے لیکر 2014 تک شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف حکومت کوئی آپریشن لانچ نہیں کر رہی تھی ۔ یہ حکومت ہی بتا سکتی ہے کہ کیوں طالبانوں کو وزیرستان اور فاٹا میں کھلی چھٹی دی گئی تھی ۔ خالانکہ دنیا کے کسی ملک میں ہم بغیر ویزہ و اقامہ کے نہ ایک دن کے لئے داخل ہوسکتے ہیں اور نہ اجازت کے بغیر قیام کرسکتے ہیں ۔بندوقوں کے ساتھ پھرنا تو دور کی بات ہے ۔ لیکن یہاں طالبان دھشت گرد مسلسل 10 سال تک ہمارے گلے کاٹتے رہے ۔ ہمارے کاروبار ، ہماری ثقافت ، ہمارے حجرے اور تعلیمی ادارے تباہ و برباد کر رہے تھے اور ریاست خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی تھی ۔ طالبانوں نے ہماری پوری ایک نسل تباہ کی ۔ ہماری معاشی ، سماجی اور سیاسی زندگی کو یکسر ختم کیا مگر مجال ہے کہ ریاست پاکستان ان کے خلاف کوئی ایکشن لیتی ۔ سول سوسائٹی ، انسان حقوق کی تنظیموں اور قوم پرست جماعتوں نے متعدد بار حکومت سے ان طالبانوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا اور لوکل لوگ بارہا حکومت کی طرف دیکھتی رہی کہ حکومت ان لوگوں کو ان دھشتگردوں سے emancipation دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ اگر حکومت چاہتی تو پہلے ہی دن ان کو ختم کر دیتی مگر حکومت نے ان کو طویل موقع دیا اور طالبان پلتے پھولتے (grow ) کرتے رہے ۔ اس دوران قبائلی پشتونوں کا اتنا نقصان ہو چکا تھا کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی اس لہر میں جب پشتونخوا جل رہا تھا تو اس دوران پنجاب کا شہر لاہور ترقی کے منازل طے کرتا ہوا انٹرنیشنل لیول کا شہر بن گیا ۔ اس کا مطلب ہے کہ دال میں کالا تھا اور پی ٹی ایم کا نعرہ صحیح ہے ۔
بالآخر جب امریکہ کا پریشر حد سے بڑھ گیا اور ڈالروں کی بڑی کھیپ آگئ تو پاکستان نے 10 سال بعد سن 2014 میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا ۔ ایک ہی وقت میں لوگوں کو نقل مکانی کو کہا اور عین اسی وقت جب لوگ گھروں سے نکلنے لگے فوج نے گن شپ ہیلی کاپٹروں شے شلنگ اور توپ اور مارٹر گولے فائر کرنے شروع کئے اور بوڑھے جوان ، مریض ، بچے و خواتین خوف و ہراس کے اس عالم میں ، گولیوں کی تھڑتھڑاہٹ اور ہیلی کاپٹروں کی گن گرج میں بنوں اور افغانستان کی طرف روانہ ہوئے ۔ لوگوں کو اتنا موقع نہ مل سکا کہ اپنا ضروری سامان اپنے ساتھ لے آتے ۔ رشتہ دار ، عزیزواقارب اور پیارے ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ۔ بہت سارے بچے اور بچیاں گم ہوگئیں ۔ کچھ خواتین اور عمر رسیدہ لوگ یہ غم برداشت نہ کر سکے اور راستے میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ میں اپنے آنسوں پر قابو نہ رکھ سکا۔ 10 لاکھ کی ابادی ایک ساتھ ایک ہی وقت میں نکل گئ ۔ گاڑیوں کی کمی کی وجہ سے لوگ 200 کلومیٹر پیدل چلنے پر مجبور تھے ۔ بھوک و پیاس سے نڈھال لوگ دن رات سفر کے بعد نیم مردہ حالت میں بنوں ، سرائے نورنگ اور لکی مروت پہنچ گئے ۔ حکومت نے بکاخیل کے مقام پر آئی ڈی پیز کے لئے جو کیمپ بنایا تھا وہ 10 لاکھ کی ابادی کے لئے ناکافی تھا ۔ حکومت نے باقی کچھ انتظامات نہیں کئے تھے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے سے لوگوں کےلئے رہائش کا معقول انتظام ہوتا ۔ اور آپریشن شروع کرنے سے 10 دن پہلے لوگوں کو باخفاظت شفٹ کیا جاتا ۔ لیکن خکومت ان غریب عوام پر طاقت اور رعب دبدبہ جمانا چاہتی تھی ۔ وزیرستان کے غیور پشتون جو بڑے بڑے جائیداد اور ملکیت رکھتے تھے اپنے ہی وطن میں بےگھر اور مہاجر بن گئے ۔ قلعہ نما گھروں کے مالک خیموں میں آگئے ۔ اس کے علاوہ ان متاثرین جنگ کے نام امریکہ ، اقوام متحدہ کے اداروں اور بین الاقوامی برادری نے جو امداد بھیجی ان میں بھی حکومت نے بڑے پیمانے پر خرد برد کی ۔ پھر بھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم کیو بنی ۔ حکومت نے راشن کے تقسیم کے طریقہ کار پر ہمارے لوگوں کی ایسی تذلیل کی کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اگر حکومت چاہتی تو راشن باعزت طریقے سے ان کے دہلیز پر پہنچا سکتی ۔ لیکن لوگوں کو اتنا مجبور و پریشان کیا گیا کہ راشن کے باری کے لئے دو دو دن قطار میں کھڑا ہونا پڑتا اور فوج اور پولیس کے ڈنڈے الگ سے کھانے پڑتے ۔ وزیرستان کے لوگوں نے سامان سے بھرے دکانیں ، مال مویشی اور گھر بار سب کچھ فوج کے رحم و کرم چھوڑ ائے تھے ۔ زندگی بھر کی جمع پونجی اور آباؤ اجداد کا میراث چھوڑ کر ایک جوڑا کپڑے میں بنوں آئے تھے لیکن دو یا تین سال بعد جب واپس گئے تو کچھ بھی موجود نہیں تھا ۔ دوبئ و امارات سے لائے گئے قیمتی سامان، الیکٹرانکس ، قالین ، فرنیچر ، کمبل ، سونے کے زیورات ، غلے ، کپڑے ، اسلحہ ، مال مویشی ، دکانوں اور گوداموں کا سامان کچھ بھی نہیں تھا ۔ دونوں بڑے شہر یعنی میرعلی و میرانشاہ صفحہ ہستی سے مٹ چکے تھے ۔ گاؤں کھنڈر میں تبدیل ہو گئے تھے ۔ تمام بے گناہ لوگوں کے گھروں وں اور دکانوں کو مسمار کیا گیا تھا یا بموں سے اڑایا گیا تھا ۔ وزیرستان صحرا کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ ایک پشتون فوجی افسر جو 2015'میں وزیرستان گیا تھا یہ منظر دیکھ کر بے ہوش ہو گیا تھا ۔ ہوش آنے کے بعد فقط اتنا کہا تھا کہ جب وزیرستان کے لوگ واپس آئیں گے اور اپنے اجاڑ وطن کا یہ منظر دیکھیں گے تو دو کام کریں گے یا تو وہ بغاوت کریں گے یا پھر دماغی توازن کھو دیں گے ۔ اور پھر وہی ہوا ۔ آگے آگے دیکھئے کہ ہوتا کیا ہے ۔
کتنی شرم کی بات ہے کہ اور تو چھوڑیں ، فوج نے ہمارے گھروں کے اینٹیں ، گارڈر اور ٹی آئرن تک بیچ دئیے تھے اور کچھ پر اپنے قلعے اور چیک پوسٹس تعمیر کئے ۔
آخری بات ؛ اتنی بڑی نقصان اٹھانے کے بعد اور اتنی مصیبت گزارنے کے بعد بالآخر حکومت نے اعلان کیا کہ اب تم واپس جاسکتے ہیں اور وزیرستان کو (کلئیر ) یعنی دہشت گردوں سے صاف کیا گیا ۔ لیکن اس وقت ہمیں شدت جھٹکا لگا جب ان طالبان کدوبارہ وہاں دندناتے دیکھا ۔جاری ہیں ۔ باقی اگلے حصے میں ر ڑ
Great
ReplyDeleteمننہ
ReplyDelete