پي ټي ایم تیزی سے اپنی اہداف کی طرف گامزن
#پی_ٹی_ایم_تیزی سے اپنے #اہداف کی طرف #گامزن :
آج کل اکثر لوگ پشتون تحفظ موومنٹ کے پارلیمانی و غیر پارلیمانی کے بحث میں الجھے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں کچھ لوگ کنفیوژن کے شکار ہے اور کچھ لوگ مایوسی پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ لیکن اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ کو یقین ہو جائے گا کہ جس طرح ایک فرد کے زندگی میں آزمائشیں اور نشیب و فراز آتے ہیں عین اس طرح قومی تحریک بھی چلنجز اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہیں ۔ یہ قانون قدرت ہے ۔ ان کے بغیر کامیابی نہیں آتی ۔ پغمبر بھی ان آزمائشوں اور تکالیف سے گزرے ہیں ۔ پی ٹی ایم کو بنے صرف 2 سال ہوگئے ہیں ۔ قومی تحریکات میں 2 سال بہت کم عرصہ ہوتا ہے ۔ موضوع کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں کہ پہلے ہم ان حالات اور پس منظر کا جائزہ لیں جن حالات میں پشتون تحفظ موومنٹ وجود میں آگئی ۔ دوستوں پی ٹی ایم کا بننا ایک معجزہ سے کم نہیں تھا ۔ پشتون قوم پر خدا نے بہت بڑی رحم کردی کہ ہم میں ایسے جوان پیدا ہوئے ۔ اب پہلے آتے ہیں ان حالات کی طرف ۔
#پی_ٹی_ایم_کےظہور_کا_زمانہ:
یہ وہ وقت تھا جب سابقہ فاٹا میں انسانیت آخری ہچکیاں لے رہا تھا ۔ ریاست کے مقتدر قوتوں فوج اور آئی ایس آئی کی خوف لوگوں کے دل و دماغ میں رچ بس گئی تھی ۔ چاروں طرف مایوسی کے بادل منڈلا رہے تھے ۔ قبائلیوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا ۔ ہزاروں لوگوں کوقتل اور زبح کیا جا چکا تھا ۔ ہر کوئی خود کو بچانے کی فکر میں تھا ۔ کسی میں جرات نہیں تھا کہ ان ظالموں کے خلاف ایک لفظ بولیں ۔ بڑے بڑے طیس مار خان ، قبائلی سردار و ملکان مشران ڈر کے مارے علاقہ چھوڑ چکے تھے یا اپنے گھروں میں دب چکے تھے ۔
سابقہ فاٹا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی ۔ جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالیاں جاری تھی ۔ اگر کوئی آواز اٹھاتا تو رات تو رات غائب کر دیا جاتا اور اگلے دن اس کی چھلنی لاش کسی ویرانے میں یا سڑک کے کنارے ملتی ۔ باھر سے بھی کوئی ہماری مدد کے لیے نہیں آیا ۔ چاہے سراج الحق ہو یا مولانا فضل الرحمان یا اسفندیار ولی خان سب ہماری اس حال پر خاموش تھے ۔ دنیا کے کسی مسلمان ملک میں ہمارے لئے کوئی ایک احتجاج بھی نہیں ہوا خالانکہ ہمیں بچپن میں یہ سکھایا گیا تھا کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ لیکن شاید وہ ہمیں مسلمان بھی نہیں سمجھ رہے تھے ۔ فلسطین والے ، کشمیر والے بھی جن کے لئے ہم نے ساری زندگی آواز بلند کی تھی وہ بھی ہمارے اوپر ظلم کے خلاف ایک لفظ نہیں بول رہے تھے ۔ پنجاب کے لوگ تو الٹا ہم سے نفرت کر رہے تھے ۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ وزیرستان اور سابقہ فاٹا اور پختونخوا کے پشتون سارے دہشت گرد ہیں ۔ کبھی کبھار سینکڑوں بم دھماکوں میں ایک آدھ دھماکہ لاہور یا پنڈی میں بھی کیا جاتا تو وہاں کے لوگوں کو یہ بتایا جاتا تھا کہ پٹھانوں نے کیا ہے ۔
ہمارے اپنے پشتون بھائی ہمیں یہ کہتے کہ ملک بچانے کے لیے یہ سب کچھ کرنا ضروری ہیں ۔ یہ منطق ہماری سمجھ سے بالاتر تھا ۔
#پی_ٹی_ایم_کا_معرض_وجود_میں_آنا:
چاروں طرف موت کے رقص اور خوف و ہراس اور مایوسی کے عالم میں کچھ جوانوں کے غیرت نے جوش مارا ۔ ڈی آئی خان اور جنوبی وزیرستان میں محسود تحفظ موومنٹ کے نام پر اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے اکٹھے ہوئے تو دوسری طرف شمالی وزیرستان میں بھی محسن داوڑ سمیت ہم لوگ اور یوتھ جون حرکت میں آگئے تھے ۔ ہم نے فاٹا انقلابی نیشنل فورم کی بنیاد رکھی تھی ۔ پشتون قوم کا ہر باشعور بندہ شدت سے ایک متحدہ پلیٹ فارم کی ضرورت محسوس کررہا تھا ۔۔ اسی اثناء میں نقیب اللہ محسود کو کراچی میں بےگناہ بےدردی سے شہید کیا گیا ۔ ایم ٹی ایم کے لڑکوں نے سر ہتھیلی پر رکھ کر ڈی آئی خان سے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا تو ظلم و بربریت سے تنگ پشتون غیرت مند جوانوں نے بنوں ، کرک ، کوہاٹ ، پشاور ، چارسدہ، مردان اور صوابی سے ان کے قافلے کو جوائن کئے اور ایسے جوائن کیا کہ دوبارہ پیچھے کی طرف نہیں دیکھا چاہے سامنے گولیوں کا سامنا کیا یا جیل جانا پڑا لیکن ایک قدم پیچھے نہیں ہوئے اور یوں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور یتیموں ، بیواؤں اور مظلوموں کی دعاؤں اور پشتون نوجوانوں کی غیرت و عزم سے ایک عظیم الشان پشتون تحفظ موومنٹ وجود میں آگیا ۔
#پشتون_تحفظ_مومنٹ_اہداف_کی_طرف_گامزن :
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ہمارے اوپر ہر قسم کی مظالم ڈھا دئیے گئے لیکن پاکستان کی کوئی سیاسی و مذہبی جماعت ہمارے ریسکیو کے لئے نہیں آئی ۔ ورنہ پشتون تحفظ موومنٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ یہ پارٹیاں کیوں ہماری مدد کے لئے نہیں آئی یا ان کی کیا مجبوریاں تھی ۔ اب جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ کی صورت میں ہمارے پاس بہت بڑا پلیٹ فارم موجود ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ یہ بذات خود سب سے بڑی کامیابی ہے کہ پی ٹی ایم بن گیا ہے اور وہ اپنے اہداف کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ ایک اور بات آپ سے شئیر کرو کہ پی ٹی ایم نے جس تیزی سے ترقی کی ہے ۔ دنیا کے کسی دوسرے تحریک نے اتنی تیزی سے ترقی نہیں کی ہے ۔ پی ٹی ایم پشتونخوا اور دنیا کے کونے کونے تک پھیل چکا ہے ۔ اس میں سوشل میڈیا کو بھی کریڈٹ جاتاہے ۔ اس تحریک نے 10 سال کا سفر 2 سال میں مکمل کیا ہے ۔ یہ صرف خیبر سے کراچی تک نہیں ہے بلکہ یہ آمو سے اباسین تک اور دنیا کے آخری کنارے تک تمام پشتونو پر مشتمل تحریک ہے ۔ یہ واحد تنظیم ہے جس کو ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف لر و بر پشتونوں کی مینڈیٹ حاصل ہیں ۔ یہ مینڈیٹ کسی دوسری سیاسی و قوم پرست جماعت کو حاصل نہیں ۔ یہ دنیا میں بھی واحد سب سے بڑی anti war movement ہے ۔
پی ٹی ایم نے قوم کو زبان دی ۔ دشمن کو للکارا ۔ قوم پر دہشت گردی کا بدنما داغ دھو یا ۔ دنیا کو بتا دیا کہ کون دہشت گردی کر رہا ہے ۔ اور پشتون ایک امن پسند قوم کے طور پر ابھرا ۔ پی ٹی ایم کی آئین بن چکی ہے ۔ جلد پی ٹی ایم کا اعلیٰ و ارفع منشور آپ کے سامنے ہوگا ۔ اب وہ حالات نہیں رہے جب غلاموں کی طرح زندگی گزار رہے تھے ۔ اب ظالموں کے اوسان خطا ہوگئے ہیں ۔
پشتون تحفظ موومنٹ کو دیوار سے لگانے کے لیے بہت حربے آزمائے گئے لیکن شاید وہ تاریخ سے ناواقف ہیں ۔ ان کو پتہ نہیں ظالم زار روس کے خلاف لینن پیدا ہو جاتا ہے ، ایران کے مطلق العنان حکمران رضا شاہ پہلوی کے خلاف حمینی جنم لیتا ہے اور خود کو برتر سمجھنے والوں جنوبی افریقہ کے گوروں کے خلاف نیلسن منڈیلا پیدا ہوتا ہے تو ان کا کیا حشر ہوجاتا ہے ۔ اس طرح ہر فرعون کے خلاف موسیٰ پیدا ہوتا ہے ۔ پی ٹی ایم کی آواز سے ظالموں کے ایوانوں کے در و دیوار لرز گئے ہیں ۔ گزشتہ 2 سالوں کے دوران پی ٹی ایم نے بےشمار کامیابیاں حاصل کیں ہے اور قوم کے لئے بےشمار فائدے لیکر آئی ہیں ۔ ہر آزمائش اور چیلنج سے خوش اسلوبی کے ساتھ نکل چکی ہے ۔ قر بانیاں ضرور دی ہے ۔ قربانیوں کے باہر یہ سب کچھ ممکن نہیں ۔ کارکنوں اور لیڈرز نے جیل کاٹے ، ملازمتیں قربان کردی شہادتیں دی لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے ۔ یہ اصل کامیابی ہے ۔ پی ٹی ایم قانونی لڑائی بھی جیت چکی ہے ۔ یہ ایک طویل لمدت جدوجہد ہے ۔ دوستوں نے مایوس نہیں ہونا ہے ، کسی کے منفی پروپیگنڈا میں نہیں آنا ہے ۔ اگلے حصے میں پی ٹی ایم کے اغراض و مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالوں گا ۔
(جاری ہے )
از قلم سعید انور داوڑ
آج کل اکثر لوگ پشتون تحفظ موومنٹ کے پارلیمانی و غیر پارلیمانی کے بحث میں الجھے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں کچھ لوگ کنفیوژن کے شکار ہے اور کچھ لوگ مایوسی پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ لیکن اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ کو یقین ہو جائے گا کہ جس طرح ایک فرد کے زندگی میں آزمائشیں اور نشیب و فراز آتے ہیں عین اس طرح قومی تحریک بھی چلنجز اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہیں ۔ یہ قانون قدرت ہے ۔ ان کے بغیر کامیابی نہیں آتی ۔ پغمبر بھی ان آزمائشوں اور تکالیف سے گزرے ہیں ۔ پی ٹی ایم کو بنے صرف 2 سال ہوگئے ہیں ۔ قومی تحریکات میں 2 سال بہت کم عرصہ ہوتا ہے ۔ موضوع کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں کہ پہلے ہم ان حالات اور پس منظر کا جائزہ لیں جن حالات میں پشتون تحفظ موومنٹ وجود میں آگئی ۔ دوستوں پی ٹی ایم کا بننا ایک معجزہ سے کم نہیں تھا ۔ پشتون قوم پر خدا نے بہت بڑی رحم کردی کہ ہم میں ایسے جوان پیدا ہوئے ۔ اب پہلے آتے ہیں ان حالات کی طرف ۔
#پی_ٹی_ایم_کےظہور_کا_زمانہ:
یہ وہ وقت تھا جب سابقہ فاٹا میں انسانیت آخری ہچکیاں لے رہا تھا ۔ ریاست کے مقتدر قوتوں فوج اور آئی ایس آئی کی خوف لوگوں کے دل و دماغ میں رچ بس گئی تھی ۔ چاروں طرف مایوسی کے بادل منڈلا رہے تھے ۔ قبائلیوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا ۔ ہزاروں لوگوں کوقتل اور زبح کیا جا چکا تھا ۔ ہر کوئی خود کو بچانے کی فکر میں تھا ۔ کسی میں جرات نہیں تھا کہ ان ظالموں کے خلاف ایک لفظ بولیں ۔ بڑے بڑے طیس مار خان ، قبائلی سردار و ملکان مشران ڈر کے مارے علاقہ چھوڑ چکے تھے یا اپنے گھروں میں دب چکے تھے ۔
سابقہ فاٹا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی ۔ جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالیاں جاری تھی ۔ اگر کوئی آواز اٹھاتا تو رات تو رات غائب کر دیا جاتا اور اگلے دن اس کی چھلنی لاش کسی ویرانے میں یا سڑک کے کنارے ملتی ۔ باھر سے بھی کوئی ہماری مدد کے لیے نہیں آیا ۔ چاہے سراج الحق ہو یا مولانا فضل الرحمان یا اسفندیار ولی خان سب ہماری اس حال پر خاموش تھے ۔ دنیا کے کسی مسلمان ملک میں ہمارے لئے کوئی ایک احتجاج بھی نہیں ہوا خالانکہ ہمیں بچپن میں یہ سکھایا گیا تھا کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ لیکن شاید وہ ہمیں مسلمان بھی نہیں سمجھ رہے تھے ۔ فلسطین والے ، کشمیر والے بھی جن کے لئے ہم نے ساری زندگی آواز بلند کی تھی وہ بھی ہمارے اوپر ظلم کے خلاف ایک لفظ نہیں بول رہے تھے ۔ پنجاب کے لوگ تو الٹا ہم سے نفرت کر رہے تھے ۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ وزیرستان اور سابقہ فاٹا اور پختونخوا کے پشتون سارے دہشت گرد ہیں ۔ کبھی کبھار سینکڑوں بم دھماکوں میں ایک آدھ دھماکہ لاہور یا پنڈی میں بھی کیا جاتا تو وہاں کے لوگوں کو یہ بتایا جاتا تھا کہ پٹھانوں نے کیا ہے ۔
ہمارے اپنے پشتون بھائی ہمیں یہ کہتے کہ ملک بچانے کے لیے یہ سب کچھ کرنا ضروری ہیں ۔ یہ منطق ہماری سمجھ سے بالاتر تھا ۔
#پی_ٹی_ایم_کا_معرض_وجود_میں_آنا:
چاروں طرف موت کے رقص اور خوف و ہراس اور مایوسی کے عالم میں کچھ جوانوں کے غیرت نے جوش مارا ۔ ڈی آئی خان اور جنوبی وزیرستان میں محسود تحفظ موومنٹ کے نام پر اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے اکٹھے ہوئے تو دوسری طرف شمالی وزیرستان میں بھی محسن داوڑ سمیت ہم لوگ اور یوتھ جون حرکت میں آگئے تھے ۔ ہم نے فاٹا انقلابی نیشنل فورم کی بنیاد رکھی تھی ۔ پشتون قوم کا ہر باشعور بندہ شدت سے ایک متحدہ پلیٹ فارم کی ضرورت محسوس کررہا تھا ۔۔ اسی اثناء میں نقیب اللہ محسود کو کراچی میں بےگناہ بےدردی سے شہید کیا گیا ۔ ایم ٹی ایم کے لڑکوں نے سر ہتھیلی پر رکھ کر ڈی آئی خان سے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا تو ظلم و بربریت سے تنگ پشتون غیرت مند جوانوں نے بنوں ، کرک ، کوہاٹ ، پشاور ، چارسدہ، مردان اور صوابی سے ان کے قافلے کو جوائن کئے اور ایسے جوائن کیا کہ دوبارہ پیچھے کی طرف نہیں دیکھا چاہے سامنے گولیوں کا سامنا کیا یا جیل جانا پڑا لیکن ایک قدم پیچھے نہیں ہوئے اور یوں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور یتیموں ، بیواؤں اور مظلوموں کی دعاؤں اور پشتون نوجوانوں کی غیرت و عزم سے ایک عظیم الشان پشتون تحفظ موومنٹ وجود میں آگیا ۔
#پشتون_تحفظ_مومنٹ_اہداف_کی_طرف_گامزن :
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ہمارے اوپر ہر قسم کی مظالم ڈھا دئیے گئے لیکن پاکستان کی کوئی سیاسی و مذہبی جماعت ہمارے ریسکیو کے لئے نہیں آئی ۔ ورنہ پشتون تحفظ موومنٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ یہ پارٹیاں کیوں ہماری مدد کے لئے نہیں آئی یا ان کی کیا مجبوریاں تھی ۔ اب جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ کی صورت میں ہمارے پاس بہت بڑا پلیٹ فارم موجود ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ یہ بذات خود سب سے بڑی کامیابی ہے کہ پی ٹی ایم بن گیا ہے اور وہ اپنے اہداف کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ ایک اور بات آپ سے شئیر کرو کہ پی ٹی ایم نے جس تیزی سے ترقی کی ہے ۔ دنیا کے کسی دوسرے تحریک نے اتنی تیزی سے ترقی نہیں کی ہے ۔ پی ٹی ایم پشتونخوا اور دنیا کے کونے کونے تک پھیل چکا ہے ۔ اس میں سوشل میڈیا کو بھی کریڈٹ جاتاہے ۔ اس تحریک نے 10 سال کا سفر 2 سال میں مکمل کیا ہے ۔ یہ صرف خیبر سے کراچی تک نہیں ہے بلکہ یہ آمو سے اباسین تک اور دنیا کے آخری کنارے تک تمام پشتونو پر مشتمل تحریک ہے ۔ یہ واحد تنظیم ہے جس کو ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف لر و بر پشتونوں کی مینڈیٹ حاصل ہیں ۔ یہ مینڈیٹ کسی دوسری سیاسی و قوم پرست جماعت کو حاصل نہیں ۔ یہ دنیا میں بھی واحد سب سے بڑی anti war movement ہے ۔
پی ٹی ایم نے قوم کو زبان دی ۔ دشمن کو للکارا ۔ قوم پر دہشت گردی کا بدنما داغ دھو یا ۔ دنیا کو بتا دیا کہ کون دہشت گردی کر رہا ہے ۔ اور پشتون ایک امن پسند قوم کے طور پر ابھرا ۔ پی ٹی ایم کی آئین بن چکی ہے ۔ جلد پی ٹی ایم کا اعلیٰ و ارفع منشور آپ کے سامنے ہوگا ۔ اب وہ حالات نہیں رہے جب غلاموں کی طرح زندگی گزار رہے تھے ۔ اب ظالموں کے اوسان خطا ہوگئے ہیں ۔
پشتون تحفظ موومنٹ کو دیوار سے لگانے کے لیے بہت حربے آزمائے گئے لیکن شاید وہ تاریخ سے ناواقف ہیں ۔ ان کو پتہ نہیں ظالم زار روس کے خلاف لینن پیدا ہو جاتا ہے ، ایران کے مطلق العنان حکمران رضا شاہ پہلوی کے خلاف حمینی جنم لیتا ہے اور خود کو برتر سمجھنے والوں جنوبی افریقہ کے گوروں کے خلاف نیلسن منڈیلا پیدا ہوتا ہے تو ان کا کیا حشر ہوجاتا ہے ۔ اس طرح ہر فرعون کے خلاف موسیٰ پیدا ہوتا ہے ۔ پی ٹی ایم کی آواز سے ظالموں کے ایوانوں کے در و دیوار لرز گئے ہیں ۔ گزشتہ 2 سالوں کے دوران پی ٹی ایم نے بےشمار کامیابیاں حاصل کیں ہے اور قوم کے لئے بےشمار فائدے لیکر آئی ہیں ۔ ہر آزمائش اور چیلنج سے خوش اسلوبی کے ساتھ نکل چکی ہے ۔ قر بانیاں ضرور دی ہے ۔ قربانیوں کے باہر یہ سب کچھ ممکن نہیں ۔ کارکنوں اور لیڈرز نے جیل کاٹے ، ملازمتیں قربان کردی شہادتیں دی لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے ۔ یہ اصل کامیابی ہے ۔ پی ٹی ایم قانونی لڑائی بھی جیت چکی ہے ۔ یہ ایک طویل لمدت جدوجہد ہے ۔ دوستوں نے مایوس نہیں ہونا ہے ، کسی کے منفی پروپیگنڈا میں نہیں آنا ہے ۔ اگلے حصے میں پی ٹی ایم کے اغراض و مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالوں گا ۔
(جاری ہے )
از قلم سعید انور داوڑ
Comments
Post a Comment