وزیرستان میں خواتین کو درپیش مسائل
وزیرستان کے خواتین کی زندگی
معاشرے میں حواتین کی حیثیت اور مسائل
یہ ایک حقیقت ہے کہ پورے ملک ،پشتونخوا اور سابقہ فاٹا میں خواتین کو سماجی ، معاشی ، سیاسی اور تعلیمی مسائل کا سامنا ہے ۔ لیکن وزیرستان کے حواتین بہت زیادہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے ۔ اس آرٹیکل میں ان تمام مسائل اور ان کے وجوہات پر ایک ایک کرکے تفصیلی روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا ۔ اس موضوع پر دوست لکھنے سے کتراتے ہیں کیونکہ وہ اس مسلے کو بہت حساس سمجھتے ہیں ۔
یہ آرٹیکل میرے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہے ۔ میں نے وزیرستان میں جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جو کچھ محسوس کیا وہ لکھ رہا ہوں ۔
وزیرستان کے حواتین نے دہشت گردوں اور ریاست کی طرف سے جو دکھ اور مظالم دیکھے اور سہے اللہ تعالیٰ دوسرے علاقوں کے خواتین کو ایسے مظالم دیکھنے سے محفوظ رکھیں ۔ وزیرستان کے ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کو اس کے سامنے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا ۔ بیویوں نے اپنے سہاگ کو چھینتے ہوئے دیکھا ۔ بہنوں نے اپنے بھائیوں کی چلنی لاشوں کو دیکھا ۔ اپنے گھروں کو اجاڑ ہوتے ہوئے دیکھا ۔ وزیرستان کے خواتین نے وہ دن بھی دیکھا کہ ان کو اپنے گھروں کو چھوڑ کر خیموں کے اندر زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ۔ آج بھی بےشمار مائیں اپنے پانچ پانچ اور دس دس سالوں سے جبری لاپتہ بیٹوں کے واپس آنے کی راہ تک رہے ہیں ۔ بہت ساری مائیں اپنی جگر گوشوں کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے چل بسی ۔ گزشتہ دو دہائیوں سے وہ خوف و دہشت کے سائے میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں ۔ بم دھماکے ، ڈرون حملے ، توپ اور لڑاکا طیاروں سے بمباریاں کیا کچھ نہیں دیکھا ۔ بہت ساری خواتین ان دھماکوں میں اڑ گئی اور یا زندگی بھر معذور ہوگئ ۔ ان صدموں نے ان کو نفسیاتی امراض لاحق کئے ۔ ابھی ان کے آنسو پونچھے ہی نہیں تھے کہ ریاست نے ان کے بیٹوں اور بھائیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے درجنوں کو شہید اور سینکڑوں کو جیلوں میں ڈال دیا ۔ ظلم کی بہت لمبی داستان ہیں جو ہماری ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں نے برداشت کیا ۔
لیکن وزیرستان کے خواتین کو دھشتگردی اور فوجی آپریشنوں سے بھی زیادہ انقصان اپنی قدامت پسند معاشرے نے پہنچایا ۔ گزشتہ 70 سالوں سے خواتین کی ترقی کے لئے ہم نے کچھ نہیں کیا ۔ اس آرٹیکل میں ہم ان تمام مسائل پر تفصیل سے بات کریں گے ۔
اب آتے ہیں ان مسائل کی طرف جن کا تعلق پشتون سماج و روایات سے ہیں ۔ ہر سوسائٹی میں کچھ غلط رسوم و رواج ہوتے ہیں جن کو ختم کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً خدا کی طرف سے پغمبر آتے اور معاشرے کی اصلاح کرتے ۔ وزیرستان کے سوسائٹی میں بھی کچھ ایسے غلط رسومات رائج ہے جس نے عورت کو دیوار سے لگا دیا ہے ۔ اور ان کی سماجی ، تعلیمی ، سیاسی اور معاشی ترقی رک گئ ہیں۔ گرچہ چند خاندانوں کی خواتین کی زندگی میں مثبت تبدیلی آگئی ہے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور وزیرستان کی مجموعی صورتحال بہت ابتر ہے ۔اج بھی اگر ان کو درپیش مسائل کی پر گفتگو ئ نہیں کی گئی تو یہ مسائل کبھی بھی حل نہیں ہونگے ۔ اور عورت غلامی کی چکی میں پستی رہے گی ۔
آئیں وزیرستان کے خواتین کو درپیش مسائل کو ایک ایک کر کے تفصیل سے بیان کرتے ہیں ۔
1.کم شرح خواندگی :
مردوں کی نسبت عورتوں میں شرح تعلیم کی کمی یا تعلیمی اداروں تک کم رسائی ؛
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری خواتین تعلیم کے میدان میں پورے پاکستان سے پیچھے ہیں ۔ گنتی کے چند خاندانوں کے علاوہ اکثریت خواتین زیور تعلیم سے محروم ہیں ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت کا جھٹکا لگے گا کہ افسوس صدا افسوس آج سے 3 سال پہلے تک 92.2 فیصد خواتین مکمل طور پر ناخواندہ ہیں ۔ اور جو باقی 7.2 فیصد خواندہ ہے وہ بھی اتنی خاص معیاری تعلیم یا اعلیٰ تعلیم والے نہیں ہیں ۔ دہشت گردی اور فوجی آپریشنوں کی وجہ سے تو لڑکیوں کی تعلیم پر مزید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ والدین اگر چہ اپنے لڑکوں کے تعلیم پر کافی حد تک توجہ دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے بیٹیوں کی تعلیم کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ اکثر والدین شعور کی کمی کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کے سخت خلاف ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم سے لڑکیوں میں بےحیائی جنم لیتی ہے ۔ وزیرستان میں دہشت گردی کے لہر کے دوران 10 سال سے طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کردی تھی اور والدین اور اساتذہ کو باقاعدہ دھمکی آمیز خطوط بھیج دئیے گئے تھے ۔ لڑکیاں طالبان کے ڈر کے مارے سکول جانے سے قاصر تھیں ۔ سینکڑوں گرلز سکولوں کو بموں سے اڑایا گیا اور کچھ گرلز سکولوں پر فوج نے قبضہ کیا تھا ۔ باقی سکولوں میں ٹیچرز ڈیوٹیاں ہی نہیں کر رہی تھیں ۔ اور باقی گرلز سکولوں کو مالک مکان نے حجروں اور مہمان خانوں میں تبدیل کیا ہیں ۔ والدین لڑکوں کی تعلیم پر زیادہ پیسے خرچ کرتے ہیں اور ان کو اندرون ملک اور بیرون ملک تعلیم کے لئے باہر بھی بھیجتے ہیں ۔ جبکہ لڑکیاں گھروں کے اندر برتن مانجھنے اور کپڑے دھونے کا کام کرتی ہیں ۔ آپ وزیرستان کے میل ڈاکٹروں، افسروں اور دوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں سے کبھی پوچھ لو کہ آپ کی بہنیں کتنی تعلیم یافتہ ہیں تو 97 فیصد کا جواب ہوگا کہ ان کی بہنیں تعلیم یافتہ نہیں ہیں ۔ 21ویں صدی کے اس جدید دور میں جہاں دنیا کے ترقیافتہ اقوام کی خواتین ماڈرن راکٹ سائنس و ٹیکنالوجی پر تحقیق کر رہی ہے ہماری خواتین اس دور میں "شکارینہ " بناتی ہیں ابھی تھوڑی تھوڑی تبدیلی آرہی ہے ۔ وزیرستان میں خواتین کے لئے کوئی اعلیٰ تعلیم کی درسگاہ نہیں ہے ۔ نہ ہی کوئی میڈیکل انسٹیٹیوٹ اور نہ ہی یونیورسٹی یا پوسٹ گریجویٹ کالج ۔ گھروں میں ٹی وی یا انٹرنیٹ بھی نہیں ہے کہ ان سے کچھ سکھ سکیں ۔ نتیجتاً وہ باقی دُنیا سے مکمل طور پر ناآشنا اور بے خبر ہیں ۔ بڑے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان کو خود بھی یہ احساس نہیں ہیں کیونکہ ان کو اپنے حقوق کے بارے میں کوئی شعور و آگہی نہیں ہے ۔
............................
2.عورتوں کو جائیداد میں حصہ نہ دینا :
وزیرستان میں 98 فیصد لوگ خواتین کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتے ۔ وزیرستان میں کوئی بھی زمین ، دکان یا مکان ، حجرہ ، مارکیٹ یا کاروبار عورت کی ملکیت میں شامل نہیں ہے ۔ وراثت میں بھی ان کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا ۔ سارا جائیداد مردوں کے نام منتقل ہوجاتا ہے ۔ حتیٰ کہ اگر کسی مرد کی نرینہ اولاد نہ ہو تو ان کے مرنے کے بعد ان کا جائیداد ان کے بیٹیوں کو نہیں ملتا بلکہ سارا جائیداد ان کے دوسرے میل رشتہ داروں جیسے بھائی اور کزن وغیرہ میں تقسیم ہوجاتاہے ۔ اس کے علاوہ قومی دولت مشترکہ جائیداد شاملات اور قبیلے کی مشترکہ پہاڑی زمینوں اور معدنیات میں بھی عورتوں کو حق ملکیت اور حصہ نہیں دیا جاتا ۔ ابھی چند سال پہلے ہمارے گاؤں کے کرومائیٹ معدنیات کے ذخائر کی تقسیم کا فارمولا اسی ظالم قانون کے تخت بنایا گیا تھا ۔ اگر کسی گھر میں 10 یا12 بھائی (میل لڑکے ) تھے تو ان کو 10 یا 12 حصے مل گئے ۔ لیکن اگر کسی گھر میں 5 یا 7 بہنیں تھی تو صرف ایک بوڑھے باپ کا حصہ مل گیا ۔ اور اگر باپ بھی اس دنیا میں نہیں ہیں اور لڑکیاں یتیم ہیں تو ان کو ایک روپیہ بھی نہیں ملا ۔ 7000 نفوس پر مشتمل ابادی میں صرف 3000 مردوں کو کرومائیٹ معدنیات کے آمدن سے پیسے مل گئے جبکہ ساڑھے تین ہزار سے ذیادہ خواتین کو اس حق سے محروم رکھا گیا ۔ یہ کتنا ظالم قانون ہیں ۔ اس کو کون بدلے گا ۔ ہمارے علاقے کے ملک و مشران اس کو بہت اچھا قانون سمجھتے ہیں ۔ عورت اپنی تمام ضروریات کے لیے مردوں پر انحصار کرتی ہیں اور اپنی نان نفقہ کے لئے مردوں کی محتاج ہیں ۔ برسوں سے یہ روایت چلی آرہی ہیں ۔
3.معاشی حقوق سے محرومی :
روزگار کی اجازت نہ دینا ؛
وزیرستان میں عورتوں کو معاشی حق حاصل نہیں ہے ۔ معاشی حق سے مراد روزگار اور دولت کے وسائل تک رسائی کا حق جیسے ہر قسم ملازمت ، تجارت ، صنعت و حرفت اور زراعت ، سروس سیکٹر جیسے بنکنگ ، میڈسن ، وکالت ، صحافت وغیرہ تک وزیرستان کے خواتین کو رسائی حاصل نہیں ہیں ۔ وزیرستان کے خواتین معیشت کے کسی شعبے سے وابستہ نہیں ہیں ۔ مردوں کی طرف سے ان کو اجازت نہیں ہیں کہ وہ گھروں سے باہر نکل کر اپنی مرضی کا کاروبار یا ملازمت کریں ۔ گنتی کے چند لیڈی ڈاکٹرز اور سکول ٹیچرز جن کی تنخواہیں بھی زیادہ تر ان کے شوہروں کے جیب میں جاتی ہیں کے علاوہ باقی شعبہ ہائے زندگی میں آپ کو وزیرستان کے خواتین کا کردار نظر نہیں آئے گا ۔
4.غیرت کے نام پر قتل :
اگر کوئی مرد کسی عورت کو چیڑے یا ہاتھ لگائیں تو اس مرد کے ساتھ ساتھ اس عورت کو بھی فوراً قتل کیا جاتا ہیں ۔ چاہے وہ عورت بےقصر اور بےگناہ کیوں نہ ہو ۔ یعنی یہ معاملہ یک طرفہ ہو صرف اس مرد کی طرف سے ۔ خالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ صرف اس مرد کو قتل کیا جائے لیکن دشمنی سے بچنے کے لئے اس عورت کو بھی مار دیا جاتا ہے ۔ یہ بڑا ظالم قانون ہے اور اس کی میں سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں ۔
اسی طرح اگر کوئی لڑکی والدین کی اجازت کے بغیر اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کریں تو اس کو بھی اکثر قتل کیا جاتا ہیں ۔ ورنہ ساری زندگی لوگ اس کے والدین کو بےغیرتی کے طعنے دیتے ہیں ۔ ہمارے خواتین ایسی سوسائٹی میں سانس لے رہے ہیں ۔
5.عورتوں کا دشمنیوں کے بھینٹ چڑھنا
پسند کی شادی کی اجازت نہ ہونا ؛
یہ بہت بڑا کالا رواج ہے کہ وزیرستان میں دشمنیوں کے خاتمے کے لیے لڑکیوں کو دشمنوں کے نکاح میں دیا جاتا ہیں ۔ اور پھر دشمن کے گھر والے ساری زندگی ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ۔
ایک اور کالا قانون کہ اگر کوئی مرد کسی لڑکی کے گھر کے سامنے بندوق سے تین فائر کردے جسے مقامی زبان میں ژاغ کہتے ہیں تو وہ لڑکی ان کی ہوجاتی ہیں چاہے وہ آدمی کس طرح کیوں نہ ہو ۔ لڑکی کے پاس دو صورتیں ہوتی ہیں یا اس آدمی کے ساتھ شادی کریں یا بصورت دیگر پھر زندگی بھر بغیر شادی کے گزار دے ۔ کیونکہ اس کالے قانون کے مطابق وہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی ۔
بچپن کی شادیاں؛
لڑکیوں کی منشاء و اجازت کے بغیر شادیاں کروانے کا رواج ؛
وزیرستان میں لڑکیوں کو اپنی شادی میں کوئی عمل دخل شامل نہیں ہوتی بلکہ ان سے پوچھنا تو گناہ کبیرہ کے مترادف سمجھا جاتا ہیں ۔ خیر شادی کے بارے میں تو میل لڑکے سے بھی نہیں پوچھا جاتا اور والدین ان کے علم میں لائے بغیر ان کا رشتہ پکا کر دیتے ہیں ۔ لڑکیوں کی بچپن میں ہی کسی کے ساتھ منگنی کردی جاتی ہیں جیسے ہی وہ 11 یا 12 سال کی ہوجاتی ہیں تو ان کے شادی کرنے کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اور یو ان کی زندگی برباد ہو جاتی ہیں ۔ عموماً یہ رشتے کزن وغیرہ یا قریبی رشتہ داروں کے ساتھ بچپن سے طے ہوتے ہیں ۔ اکثر رشتے ایسے بھی ہوجاتے ہیں کہ شادی کے بعد لڑکی کو پتہ چل جاتا ہے کہ کونسے صوفی کے ساتھ ان کی شادی ہوئی ہیں ۔ اور تب جا کے ان کا شکل دیکھ لیتی ہے ۔ لڑکیوں کو شادی میں بھی جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا ۔ اس کے علاوہ شرمناک بات یہ کہ لڑکیوں کی 3 لاکھ سے 5 لاکھ تک کا ریٹ مقرر ہے ۔ لڑکی کو ایک ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنا پڑتا ہے جسے انہوں نے شادی سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوتا ہے ۔ اکثر نسوار والے آدمیوں کو معصوم سی لڑکیاں بیاہ کر دی جاتی ہیں ۔
اگر کوئی لڑکی اپنی شوہر کو پسند نہ کریں تو سب ان کو برا بھلا کہتے ہیں اور وہ بادل ناخواستہ ساری زندگی ان کی قید میں زندگی گزارتی ہیں ۔ کیونکہ وزیرستان کے لڑکیوں کو خلع یا طلاق لینے کی کوئی اجازت نہیں ہے ۔
......................
6.کم حثیت
نچلا درجہ
Low status
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وزیرستان میں مرد اور عورت کے سٹیٹس میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ زندگی کے ہر میدان میں ان کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو مقامی معاشرے میں مرد کو حاصل ہے ۔ اور وہاں لوگ اس تفریق کو عین فطرتی اور اسلامی سمجھتے ہیں ۔ اگر آپ نے وزیرستان میں کسی شادی کی تقریب میں شرکت کی ہوگی تو آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ کھانا پہلے مردوں کو سرو کیا جاتا ہے ، پھر بچوں کو اور سب سے آخر میں عورتوں کو بچا کچا معمولی سا کھانا دیا جاتا ہے ۔
اس کے علاوہ گھر میں عورت مرد کے برابر کرسی یا چارپائی پر نہیں بیٹھتی بلکہ اس کے سامنے ادب سے زمین پر بیٹھ جاتی ہے ۔ پتہ نہیں برابر بیٹھنے سے مردوں کی شان میں کونسی گستاخی ہو جاتی ہے ۔ وزیرستان کے مردوں بلکہ چھوٹے لڑکوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مرد عورت سے سپیرئیر ہے ۔ اور مولوی بھی مسجد میں مردوں کو یہی بتاتے ہیں کہ تم اپنی عورتوں کے حاکم ہو ۔ اور یہ کہ اگر انسان کو سجدہ جائز ہوتا تو بیویوں کو اپنی شوہروںوں کو سجدے کرنے کا حکم ہوتا ۔ اور عورت کو کمتر ثابت کرنے کیلئے باقاعدہ دلیلیں پیش کی جاتی ہے ۔ عورت کو کبھی شیطان اور شر و فساد سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ عورتوں کے بارے میں خود ساختہ کہاوتیں بنائی گئی ہے مثلاً یہ کہ عورت مرد کی بائیں جوتے کی حثیت رکھتی ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت پر کبھی اعتبار نہ کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بھی لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ بھائی اور باپ کی بات مان لیا کرو کیونکہ بھائی اور باپ دوبارہ نہیں ملتے ۔ بیوی تو دوسری بھی مل جائے گی ۔
وزیرستان کے تاریخ میں آج تک کسی عورت کو کسی فیصلہ ساز ادارے میں شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ چاہے کوئی جرگہ ہو یا علاقے کی فلاح و بہبود کا کوئی تنظیم ہو حتیٰ کہ گھر کے فیصلوں میں بھی اس کو شامل نہیں کیا جاتا ۔
اگر کوئی مرد اپنی بیوی سے صلاح مشورہ کرتا ہے تو اس کو لوگ بےغیرت سمجھتے ہیں ۔
عورتوں کو عقلی لحاظ سے بھی کمتر سمجھا جاتا ہے ۔ ایک دوست مجھے کہہ رہا تھا کہ عورتیں بےواقوف ہوتی ہیں تو میں نے کہا کہ اگر آپ کو میں بچپن سے لیکر جوانی تک بغیر تعلیم و تربیت کے گھر کے چار دیواری کے اندر بند کرو اور ٹی وی ریڈیو یا باھر کی دنیا کی ایکسپوژر کی ہوا نہ لگنے دو تو آپ سے بڑا بےواقوف اور جاہل شخص کوئی نہ ہوگا ۔
7. جنسی تفریق
جینڈر ڈسکریمینشن :
اگر چہ یہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی یہ مسلہ پایا جاتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔ وزیر ستان میں عورتوں کو پیدائش کے دن سے جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جیسی ہی لڑکی پیدا ہوجاتی ہے تو خاندان والے فوراً منہ لٹکا دیتے ہیں اور لڑکی کی پیدائش پر خوشی کے بجائے خفا ہوجاتے ہیں ۔ لیکن اگر لڑکا پیدا ہوتا ہے تو مبارکبادوں کی دوڑیں لگ جاتی ہے اور ہوائی فائرنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ لڑکے کی پیدائش پر بڑے بڑے دنبے یا بیل زبح کرتے ہیں اور تمام لوگوں میں مٹھائیاں اور خوانائ بانٹ دیتے ہیں لیکن لڑکی کی پیدائش پر مرغی بھی زبحہ نہیں کرتے اور نہ ہی خونائ یا مٹائی تقسیم کرتے ہیں ۔ اس طرح جیب خرچہ بھی لڑکوں کو لڑکیوں کی نسبت زیادہ ملتا ہے ۔ عام تقریبات میں بھی مردوں کو زیادہ پروٹوکول ملتا ہے ۔ اسی طرح لڑکوں کی تعلیم پر بھی لڑکیوں کی نسبت زیادہ خرچہ کیا جاتا ہے ۔ وزیرستان میں والدین صرف بیٹے کی شادی پر دعوت ولیمہ اور دھوم دھام سے فنکشن کا انعقاد کرتے ہیں جبکہ بیٹی کو سادگی سے رخصت کردیا جاتا ہے ۔ وزیرستان میں اتنی جنسی تفریق ہیں کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔
وزیرستان کے مردوں کے لئے مکمل آزادی ہے لیکن عورتوں کے لئے بہت سارے حدود و قیود ہیں ۔ وزیرستان کے مرد حجروں میں خود ہالی ووڈ کی فحش فلمیں دیکھتے ہیں لیکن عورتوں کے لئے ٹی وی پر خبرنامہ بھی حرام اور گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ۔
باپ بیٹوں کو پہلی ترجیح دیتا ہے ۔ لڑکوں کو جو آزادی حاصل ہے لڑکیاں خواب میں بھی اس کا تصور نہیں کر سکتی ۔ بوڑھی خواتین جوان لڑکیوں کو بچپن سے یہ تربیت دیتی ہے کہ کس طرح مردوں کی خدمت کرنی ہے ۔ والدین کا آوارہ لڑکا باھر گھومنے پھرنے کے بعد جیسے ہی گھر میں داخل ہوتا ہے تو ماں فوراً بیٹی کو حکم دیتی ہے کہ آٹھ اور لاڈلے کو چائے بنا کے دو یا روٹی دیدو ۔ بھائی بھی بہن سے اپنی خدمت اپنا حق سمجھتا ہے ۔ حتیٰ کہ بہنیں ان کے جوتے تک پالش کرتی ہیں ۔ لیکن مجال ہے کہ بھائی نے ایک دن بھی اپنی بہن کی خدمت کی ہو ۔ جس وقت لڑکے کرکٹ کھیلتے ہیں اس وقت لڑکیاں پانی کے مٹکے سروں پر رکھ کر پانی لاتی ہیں یا جانوروں کے لئے چارہ لاتی ہیں ۔ پھر بھی سالن میں سارا گوشت پہلے مرد کھا لیتے ہیں ۔ اس میں قصور ان عورتوں کا بھی ہے جو اس تفریق کو اپنا مقدر مان لیتی ہے ۔
8.وزیرستان میں اکثر خواتین کا شوہر سے دور زندگی گزارنا
ساس کے مظالم ؛
جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ وزیرستان میں ابھی بھی مشترکہ خاندان یعنی کمبائنڈ فیملی کا تصور پایا جاتاہے ۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ والدین اس چیز کو بہت مائنڈ کرتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی سے سب کے سامنے کمپنی دے یا اس کو اپنے ساتھ باہر لے کے جائے ۔ دوسرا یہ کہ وزیرستان کے مرد اپنے بیوی بچوں سے دور اکثر روزگار کے سلسلے میں سمندر پار خلیج کے ممالک جیسے قطر ، عرب امارات یا سعودی عرب وغیرہ میں کئ کئ سال گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں اس لئے خواتین زندگی کا بڑا حصہ شوہر کے باھر گزارتی ہیں ۔ چونکہ وزیرستان میں اکثریت گھروں میں انٹرنیٹ تو دور کی بات ہے فون کی سہولت بھی نہیں ہوتی اس لیے مہینوں مہینوں بیوی بچوں کا ان سے رابطہ تک نہیں ہوتا ۔ دوسری طرف ساس بہو کے ساتھ اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتی رہتی ہے ۔ وہ بہو کو اپنی پراپرٹی سمجھتی ہے اور ایسے حکم صادر کرتی ہے جیسے وہ ان کی ذاتی ملازمہ ہو ۔ میں ایسے را راویہ کی مذمت کرتا ہوں ۔
9.فنکشن کے علاوہ عام دنوں میں بناؤ سنگھار پر پابندی :
والدین اور رشتہ دار شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے علاوہ عام دنوں میں لڑکیوں کے بناؤ سنگھار کو بہت مائنڈ کرتے ہیں ۔ کیونکہ کوئی لڑکی اگر ذیادہ صفائی پسند ہو یا بناؤ سنگھار کرتی ہو تو سوسائٹی میں لوگ ان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ کچھ گھروں میں اس کو سخت معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ بوڑھی خواتین لڑکیوں کو ایسا کرنے سے منع بھی کرتی ہے ۔ لڑکیوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے ۔ جن خواتین کے شوہر مر جاتے ہیں وہ بھی سوسائٹی کے دباؤ سے کبھی میک اپ یا فیشن وغیرہ نہیں کر سکتی بصورت دیگر اس پر تہمت لگ سکتا ہے ۔ وزیرستان کی قدامت پسند معاشرے نے عورت کی زندگی کو شکستہ اور اس کے حسن کو ماند کر دیا ہے ۔ عورت کو مٹی سے بنے دیواروں سے لگا دیا ہیں ۔ ان کے زندگی کے شوخ رنگوں اور جلوے کو اندھیروں میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔کھل کر مسکرانے پر پابندی ہیں ۔ اللہ ان بوڑھے قدامت پسندوں سے ان کو نجات دلائیں ۔
10.مزدوری کرانا :
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جن لڑکیوں کو غیرت کے نام پر سکول نہیں بھیجتے انہیں لڑکیوں کو لکڑیاں کاٹنے کے لئے پہاڑوں پر بھیجا جاتاہے ۔ یہ کس قسم کے پشتون روایات ہے کہ سکول اور کالج جانے سے ان قبائلی مشران کی عزت و ناموس میں کمی آجاتی ہے لیکن کھیتوں میں جانوروں کے لئے چارہ لانے کےلئے انہیں خواتین کے جانے سے آپ کے عزت و ناموس پر کوئی سوال نہیں اٹھتا ۔ آپ کے شرم و حیا کے بھی الگ الگ پیمانے ہیں ۔ ایک بات یاد آگئی ۔ میرانشاہ کے قریب چشمہ سربندکی کے قریب بنوں سے تعلق رکھنے والا ایک بزرگ آدمی رہتا تھا ۔ جس کی بیوی ہمارے ہاں ایک سکول میں ٹیچر تھی ۔ اور ان کی ماشاءاللہ 6 بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں ۔ گاؤں کے لوگ اکثر ان کو طعنے دیتے تھے کہ آپ کی بیوی اور بیٹیاں پشتون روایات کے خلاف تعلیم کے لئے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو ایک دن اس آدمی نے تنگ آکر مسجد میں سب گاؤں والوں کی تاریخی کلاس لے لی اور کہا کہ شرم تو تم لوگوں کو انی چاہئے کہ اپنی عورتوں کو کھیتوں میں، پ محنت مزدوری، ندی نالوں سے پانی لانے اور جنگل سے لکڑیاں لانے کے لئے بھیجتے ہیں ۔ اور میری بیوی اور بیٹیاں ایک چاردیواری سے دوسری چاردیواری میں درس و تدریس کے شعبے میں عزت و آرام کی زندگی گزار رہی ہیں ۔ تو سب کے سر جھک گئے اور اس دن کے بعد گاؤں والوں نے دوبارہ اس موضوع پر کبھی بات نہیں کی ۔
11. مردوں کی خدمت گزاری:
ساری صورتحال پر نظر ڈالنے سے بندہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ وزیرستان میں مرد عورتوں کے ساتھ فیوڈل لارڈ یا ڈکٹیٹر کی طرح رویہ اور سلوک رکھتے ہیں ۔ جیسے خواتین ان کی رعایا ہو ۔ اور وہ ان کے مالک و حاکم ۔ وزیرستان کے کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا نے عورتوں کو مردوں کے خدمت اور حکم کی بجاآوری کے لئے تحلیق کیا ہے ۔ اور کوئی عورت اس سے انکار کردے تو سوسائٹی میں اس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔
12.سیاسی حقوق :
پاکستان کے آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ تمام شہریوں کو بلاتفریق برابر سیاسی حقوق حاصل ہونگے۔ لیکن بدقسمتی سے گزشتہ 70 سالوں سے وزیرستان میں عورتوں کو ان کی سیاسی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ۔ وزیرستان کی تاریخ میں کبھی بھی خواتین کسی سیاسی ، قومی یا مذہبی جماعت یا تنظیم کا حصہ نہیں بن سکی ہیں ۔ اور نہ کبھی کسی سیاسی پلیٹ فارم سے کردار ادا کرنے کا موقع دیا گیا ہے ۔ وزیرستان میں کسی خاتون کو بلدیاتی ، صوبائی یا قومی اسمبلی کے لئے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ۔ اگر وزیرستان کے نام پر کوئی ایک یا دو خواتین کوٹہ پر نامزد بھی ہوئی ہے تو وہ پشاور اسلام آباد میں رہنے والیاں ہیں ۔ جس کے آباؤ اجداد کا تعلق وزیرستان سے رہا ہے ۔ الیکشن لڑنا تو دور کی بات ہے ۔ بعض دور دراز علاقوں میں ووٹ ڈالنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ۔
13.گھریلو تشدد :
اگر چہ چہ دنیا کے محتلف ممالک میں عورتوں کو ڈومیسٹک وئیولینس کا سامنا ہوتا ہے لیکن وزیرستان میں یہ مسلہ بھی زیادہ گھمبیر ہے ۔بعض شوہر عورتوں کو معمولی معمولی باتوں پر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔ کچھ شوہر روایتی جاگیر داروں کی طرح راویہ رکھتے ہیں ۔ ہمارے گاؤں میں ایک آدمی نے بیوی کو مار مار کے قتل کیا تھا ۔ حکومت نام کی چیز وہاں پر تو تھی نہیں اس لئے کسی نے کچھ نہیں کہا اور اس آدمی نے دوسری شادی کی ۔
14.خوراک میں غذائیت کی کمی :
وزیرستان کے بیشتر خواتین کو معیاری خوراک اور متوازن غذا میسر نہیں ہے ۔ مر خضرات تو اکثر باھر ہوٹلوں میں یا دوستوں کے ساتھ ثوبت اور دعوتیں اڑاتے رہتے ہیں ۔ لیکن بیچاری خواتین گھروں میں دال ساگ پر گزارا کرتی ہیں ۔ غذا کی کمی کی وجہ سے بہت ساری خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں ۔ غربت اور تنگدستی کے باعث خشک اور تازہ پھل نہیں کھا سکتے ۔
15. غیر معیاری زندگی اور سہولیات کا فقدان :
ویسے تو تیسری دنیا بشمول پاکستان اور پختونخوا میں سٹینڈرڈ لائف بہت کم لوگوں کو نصیب ہے ۔ لیکن وزیرستان میں خواتین کی زندگی قید سے بھی بدتر ہیں ۔ گھروں کی حالت ٹھیک نہیں ۔ ان میں جدید سہولیات کا فقدان ہے ۔ ہماری خواتین موٹر کار ، ٹی وی ، گیس ، بجلی اور ٹیلی فون سے محروم ہیں ۔ گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے ۔ لکڑیوں کو جلا کر کھانا تیار کیا جاتاہے ۔ باتھ روم ، کچن اور بیڈروم پرانے زمانے کے بنے ہوئے ہیں ۔ البتہ مردوں نے اپنے لئے حجروں کو اچھی طرح عمدہ فرنیچر اور قیمتی قالین کے ساتھ سجا دیا ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے خواتین کو یہ سہولیات حاصل نہیں ہیں ۔
صحت کے بھی بےشمار مسائل ہیں ۔ لیڈی ڈاکٹرز کی سخت کمی ہے ۔ خواتین کے لئے اچھے ہسپتال اور سپیشلسٹ ڈاکٹر نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
العرض وزیرستان میں عورتوں کو بےشمار مسائل کا سامنا ہے ۔ جن کے وجوہات میں تعلیم و شعور کی کمی ، غلط توہمات و غلط رسم و رواج ، قدامت پسندی ، قبائلی فرسودہ خیالات و نظریات ، حکومت کی چشم پوشی وغیرہ شامل ہیں ۔
امید ہے اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ اپنے کپیسٹی کے مطابق وزیرستان کے خواتین کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ضرور نبھائیں گے ۔
اپنی کمنٹس اور آرا سے ضرور آگاہ کیجئے ۔
معاشرے میں حواتین کی حیثیت اور مسائل
یہ ایک حقیقت ہے کہ پورے ملک ،پشتونخوا اور سابقہ فاٹا میں خواتین کو سماجی ، معاشی ، سیاسی اور تعلیمی مسائل کا سامنا ہے ۔ لیکن وزیرستان کے حواتین بہت زیادہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے ۔ اس آرٹیکل میں ان تمام مسائل اور ان کے وجوہات پر ایک ایک کرکے تفصیلی روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا ۔ اس موضوع پر دوست لکھنے سے کتراتے ہیں کیونکہ وہ اس مسلے کو بہت حساس سمجھتے ہیں ۔
یہ آرٹیکل میرے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہے ۔ میں نے وزیرستان میں جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جو کچھ محسوس کیا وہ لکھ رہا ہوں ۔
وزیرستان کے حواتین نے دہشت گردوں اور ریاست کی طرف سے جو دکھ اور مظالم دیکھے اور سہے اللہ تعالیٰ دوسرے علاقوں کے خواتین کو ایسے مظالم دیکھنے سے محفوظ رکھیں ۔ وزیرستان کے ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کو اس کے سامنے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا ۔ بیویوں نے اپنے سہاگ کو چھینتے ہوئے دیکھا ۔ بہنوں نے اپنے بھائیوں کی چلنی لاشوں کو دیکھا ۔ اپنے گھروں کو اجاڑ ہوتے ہوئے دیکھا ۔ وزیرستان کے خواتین نے وہ دن بھی دیکھا کہ ان کو اپنے گھروں کو چھوڑ کر خیموں کے اندر زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ۔ آج بھی بےشمار مائیں اپنے پانچ پانچ اور دس دس سالوں سے جبری لاپتہ بیٹوں کے واپس آنے کی راہ تک رہے ہیں ۔ بہت ساری مائیں اپنی جگر گوشوں کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے چل بسی ۔ گزشتہ دو دہائیوں سے وہ خوف و دہشت کے سائے میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں ۔ بم دھماکے ، ڈرون حملے ، توپ اور لڑاکا طیاروں سے بمباریاں کیا کچھ نہیں دیکھا ۔ بہت ساری خواتین ان دھماکوں میں اڑ گئی اور یا زندگی بھر معذور ہوگئ ۔ ان صدموں نے ان کو نفسیاتی امراض لاحق کئے ۔ ابھی ان کے آنسو پونچھے ہی نہیں تھے کہ ریاست نے ان کے بیٹوں اور بھائیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے درجنوں کو شہید اور سینکڑوں کو جیلوں میں ڈال دیا ۔ ظلم کی بہت لمبی داستان ہیں جو ہماری ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں نے برداشت کیا ۔
لیکن وزیرستان کے خواتین کو دھشتگردی اور فوجی آپریشنوں سے بھی زیادہ انقصان اپنی قدامت پسند معاشرے نے پہنچایا ۔ گزشتہ 70 سالوں سے خواتین کی ترقی کے لئے ہم نے کچھ نہیں کیا ۔ اس آرٹیکل میں ہم ان تمام مسائل پر تفصیل سے بات کریں گے ۔
اب آتے ہیں ان مسائل کی طرف جن کا تعلق پشتون سماج و روایات سے ہیں ۔ ہر سوسائٹی میں کچھ غلط رسوم و رواج ہوتے ہیں جن کو ختم کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً خدا کی طرف سے پغمبر آتے اور معاشرے کی اصلاح کرتے ۔ وزیرستان کے سوسائٹی میں بھی کچھ ایسے غلط رسومات رائج ہے جس نے عورت کو دیوار سے لگا دیا ہے ۔ اور ان کی سماجی ، تعلیمی ، سیاسی اور معاشی ترقی رک گئ ہیں۔ گرچہ چند خاندانوں کی خواتین کی زندگی میں مثبت تبدیلی آگئی ہے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور وزیرستان کی مجموعی صورتحال بہت ابتر ہے ۔اج بھی اگر ان کو درپیش مسائل کی پر گفتگو ئ نہیں کی گئی تو یہ مسائل کبھی بھی حل نہیں ہونگے ۔ اور عورت غلامی کی چکی میں پستی رہے گی ۔
آئیں وزیرستان کے خواتین کو درپیش مسائل کو ایک ایک کر کے تفصیل سے بیان کرتے ہیں ۔
1.کم شرح خواندگی :
مردوں کی نسبت عورتوں میں شرح تعلیم کی کمی یا تعلیمی اداروں تک کم رسائی ؛
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری خواتین تعلیم کے میدان میں پورے پاکستان سے پیچھے ہیں ۔ گنتی کے چند خاندانوں کے علاوہ اکثریت خواتین زیور تعلیم سے محروم ہیں ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت کا جھٹکا لگے گا کہ افسوس صدا افسوس آج سے 3 سال پہلے تک 92.2 فیصد خواتین مکمل طور پر ناخواندہ ہیں ۔ اور جو باقی 7.2 فیصد خواندہ ہے وہ بھی اتنی خاص معیاری تعلیم یا اعلیٰ تعلیم والے نہیں ہیں ۔ دہشت گردی اور فوجی آپریشنوں کی وجہ سے تو لڑکیوں کی تعلیم پر مزید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ والدین اگر چہ اپنے لڑکوں کے تعلیم پر کافی حد تک توجہ دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے بیٹیوں کی تعلیم کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ اکثر والدین شعور کی کمی کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کے سخت خلاف ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم سے لڑکیوں میں بےحیائی جنم لیتی ہے ۔ وزیرستان میں دہشت گردی کے لہر کے دوران 10 سال سے طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کردی تھی اور والدین اور اساتذہ کو باقاعدہ دھمکی آمیز خطوط بھیج دئیے گئے تھے ۔ لڑکیاں طالبان کے ڈر کے مارے سکول جانے سے قاصر تھیں ۔ سینکڑوں گرلز سکولوں کو بموں سے اڑایا گیا اور کچھ گرلز سکولوں پر فوج نے قبضہ کیا تھا ۔ باقی سکولوں میں ٹیچرز ڈیوٹیاں ہی نہیں کر رہی تھیں ۔ اور باقی گرلز سکولوں کو مالک مکان نے حجروں اور مہمان خانوں میں تبدیل کیا ہیں ۔ والدین لڑکوں کی تعلیم پر زیادہ پیسے خرچ کرتے ہیں اور ان کو اندرون ملک اور بیرون ملک تعلیم کے لئے باہر بھی بھیجتے ہیں ۔ جبکہ لڑکیاں گھروں کے اندر برتن مانجھنے اور کپڑے دھونے کا کام کرتی ہیں ۔ آپ وزیرستان کے میل ڈاکٹروں، افسروں اور دوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں سے کبھی پوچھ لو کہ آپ کی بہنیں کتنی تعلیم یافتہ ہیں تو 97 فیصد کا جواب ہوگا کہ ان کی بہنیں تعلیم یافتہ نہیں ہیں ۔ 21ویں صدی کے اس جدید دور میں جہاں دنیا کے ترقیافتہ اقوام کی خواتین ماڈرن راکٹ سائنس و ٹیکنالوجی پر تحقیق کر رہی ہے ہماری خواتین اس دور میں "شکارینہ " بناتی ہیں ابھی تھوڑی تھوڑی تبدیلی آرہی ہے ۔ وزیرستان میں خواتین کے لئے کوئی اعلیٰ تعلیم کی درسگاہ نہیں ہے ۔ نہ ہی کوئی میڈیکل انسٹیٹیوٹ اور نہ ہی یونیورسٹی یا پوسٹ گریجویٹ کالج ۔ گھروں میں ٹی وی یا انٹرنیٹ بھی نہیں ہے کہ ان سے کچھ سکھ سکیں ۔ نتیجتاً وہ باقی دُنیا سے مکمل طور پر ناآشنا اور بے خبر ہیں ۔ بڑے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان کو خود بھی یہ احساس نہیں ہیں کیونکہ ان کو اپنے حقوق کے بارے میں کوئی شعور و آگہی نہیں ہے ۔
............................
2.عورتوں کو جائیداد میں حصہ نہ دینا :
وزیرستان میں 98 فیصد لوگ خواتین کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتے ۔ وزیرستان میں کوئی بھی زمین ، دکان یا مکان ، حجرہ ، مارکیٹ یا کاروبار عورت کی ملکیت میں شامل نہیں ہے ۔ وراثت میں بھی ان کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا ۔ سارا جائیداد مردوں کے نام منتقل ہوجاتا ہے ۔ حتیٰ کہ اگر کسی مرد کی نرینہ اولاد نہ ہو تو ان کے مرنے کے بعد ان کا جائیداد ان کے بیٹیوں کو نہیں ملتا بلکہ سارا جائیداد ان کے دوسرے میل رشتہ داروں جیسے بھائی اور کزن وغیرہ میں تقسیم ہوجاتاہے ۔ اس کے علاوہ قومی دولت مشترکہ جائیداد شاملات اور قبیلے کی مشترکہ پہاڑی زمینوں اور معدنیات میں بھی عورتوں کو حق ملکیت اور حصہ نہیں دیا جاتا ۔ ابھی چند سال پہلے ہمارے گاؤں کے کرومائیٹ معدنیات کے ذخائر کی تقسیم کا فارمولا اسی ظالم قانون کے تخت بنایا گیا تھا ۔ اگر کسی گھر میں 10 یا12 بھائی (میل لڑکے ) تھے تو ان کو 10 یا 12 حصے مل گئے ۔ لیکن اگر کسی گھر میں 5 یا 7 بہنیں تھی تو صرف ایک بوڑھے باپ کا حصہ مل گیا ۔ اور اگر باپ بھی اس دنیا میں نہیں ہیں اور لڑکیاں یتیم ہیں تو ان کو ایک روپیہ بھی نہیں ملا ۔ 7000 نفوس پر مشتمل ابادی میں صرف 3000 مردوں کو کرومائیٹ معدنیات کے آمدن سے پیسے مل گئے جبکہ ساڑھے تین ہزار سے ذیادہ خواتین کو اس حق سے محروم رکھا گیا ۔ یہ کتنا ظالم قانون ہیں ۔ اس کو کون بدلے گا ۔ ہمارے علاقے کے ملک و مشران اس کو بہت اچھا قانون سمجھتے ہیں ۔ عورت اپنی تمام ضروریات کے لیے مردوں پر انحصار کرتی ہیں اور اپنی نان نفقہ کے لئے مردوں کی محتاج ہیں ۔ برسوں سے یہ روایت چلی آرہی ہیں ۔
3.معاشی حقوق سے محرومی :
روزگار کی اجازت نہ دینا ؛
وزیرستان میں عورتوں کو معاشی حق حاصل نہیں ہے ۔ معاشی حق سے مراد روزگار اور دولت کے وسائل تک رسائی کا حق جیسے ہر قسم ملازمت ، تجارت ، صنعت و حرفت اور زراعت ، سروس سیکٹر جیسے بنکنگ ، میڈسن ، وکالت ، صحافت وغیرہ تک وزیرستان کے خواتین کو رسائی حاصل نہیں ہیں ۔ وزیرستان کے خواتین معیشت کے کسی شعبے سے وابستہ نہیں ہیں ۔ مردوں کی طرف سے ان کو اجازت نہیں ہیں کہ وہ گھروں سے باہر نکل کر اپنی مرضی کا کاروبار یا ملازمت کریں ۔ گنتی کے چند لیڈی ڈاکٹرز اور سکول ٹیچرز جن کی تنخواہیں بھی زیادہ تر ان کے شوہروں کے جیب میں جاتی ہیں کے علاوہ باقی شعبہ ہائے زندگی میں آپ کو وزیرستان کے خواتین کا کردار نظر نہیں آئے گا ۔
4.غیرت کے نام پر قتل :
اگر کوئی مرد کسی عورت کو چیڑے یا ہاتھ لگائیں تو اس مرد کے ساتھ ساتھ اس عورت کو بھی فوراً قتل کیا جاتا ہیں ۔ چاہے وہ عورت بےقصر اور بےگناہ کیوں نہ ہو ۔ یعنی یہ معاملہ یک طرفہ ہو صرف اس مرد کی طرف سے ۔ خالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ صرف اس مرد کو قتل کیا جائے لیکن دشمنی سے بچنے کے لئے اس عورت کو بھی مار دیا جاتا ہے ۔ یہ بڑا ظالم قانون ہے اور اس کی میں سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں ۔
اسی طرح اگر کوئی لڑکی والدین کی اجازت کے بغیر اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کریں تو اس کو بھی اکثر قتل کیا جاتا ہیں ۔ ورنہ ساری زندگی لوگ اس کے والدین کو بےغیرتی کے طعنے دیتے ہیں ۔ ہمارے خواتین ایسی سوسائٹی میں سانس لے رہے ہیں ۔
5.عورتوں کا دشمنیوں کے بھینٹ چڑھنا
پسند کی شادی کی اجازت نہ ہونا ؛
یہ بہت بڑا کالا رواج ہے کہ وزیرستان میں دشمنیوں کے خاتمے کے لیے لڑکیوں کو دشمنوں کے نکاح میں دیا جاتا ہیں ۔ اور پھر دشمن کے گھر والے ساری زندگی ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ۔
ایک اور کالا قانون کہ اگر کوئی مرد کسی لڑکی کے گھر کے سامنے بندوق سے تین فائر کردے جسے مقامی زبان میں ژاغ کہتے ہیں تو وہ لڑکی ان کی ہوجاتی ہیں چاہے وہ آدمی کس طرح کیوں نہ ہو ۔ لڑکی کے پاس دو صورتیں ہوتی ہیں یا اس آدمی کے ساتھ شادی کریں یا بصورت دیگر پھر زندگی بھر بغیر شادی کے گزار دے ۔ کیونکہ اس کالے قانون کے مطابق وہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی ۔
بچپن کی شادیاں؛
لڑکیوں کی منشاء و اجازت کے بغیر شادیاں کروانے کا رواج ؛
وزیرستان میں لڑکیوں کو اپنی شادی میں کوئی عمل دخل شامل نہیں ہوتی بلکہ ان سے پوچھنا تو گناہ کبیرہ کے مترادف سمجھا جاتا ہیں ۔ خیر شادی کے بارے میں تو میل لڑکے سے بھی نہیں پوچھا جاتا اور والدین ان کے علم میں لائے بغیر ان کا رشتہ پکا کر دیتے ہیں ۔ لڑکیوں کی بچپن میں ہی کسی کے ساتھ منگنی کردی جاتی ہیں جیسے ہی وہ 11 یا 12 سال کی ہوجاتی ہیں تو ان کے شادی کرنے کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اور یو ان کی زندگی برباد ہو جاتی ہیں ۔ عموماً یہ رشتے کزن وغیرہ یا قریبی رشتہ داروں کے ساتھ بچپن سے طے ہوتے ہیں ۔ اکثر رشتے ایسے بھی ہوجاتے ہیں کہ شادی کے بعد لڑکی کو پتہ چل جاتا ہے کہ کونسے صوفی کے ساتھ ان کی شادی ہوئی ہیں ۔ اور تب جا کے ان کا شکل دیکھ لیتی ہے ۔ لڑکیوں کو شادی میں بھی جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا ۔ اس کے علاوہ شرمناک بات یہ کہ لڑکیوں کی 3 لاکھ سے 5 لاکھ تک کا ریٹ مقرر ہے ۔ لڑکی کو ایک ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنا پڑتا ہے جسے انہوں نے شادی سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوتا ہے ۔ اکثر نسوار والے آدمیوں کو معصوم سی لڑکیاں بیاہ کر دی جاتی ہیں ۔
اگر کوئی لڑکی اپنی شوہر کو پسند نہ کریں تو سب ان کو برا بھلا کہتے ہیں اور وہ بادل ناخواستہ ساری زندگی ان کی قید میں زندگی گزارتی ہیں ۔ کیونکہ وزیرستان کے لڑکیوں کو خلع یا طلاق لینے کی کوئی اجازت نہیں ہے ۔
......................
6.کم حثیت
نچلا درجہ
Low status
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وزیرستان میں مرد اور عورت کے سٹیٹس میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ زندگی کے ہر میدان میں ان کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو مقامی معاشرے میں مرد کو حاصل ہے ۔ اور وہاں لوگ اس تفریق کو عین فطرتی اور اسلامی سمجھتے ہیں ۔ اگر آپ نے وزیرستان میں کسی شادی کی تقریب میں شرکت کی ہوگی تو آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ کھانا پہلے مردوں کو سرو کیا جاتا ہے ، پھر بچوں کو اور سب سے آخر میں عورتوں کو بچا کچا معمولی سا کھانا دیا جاتا ہے ۔
اس کے علاوہ گھر میں عورت مرد کے برابر کرسی یا چارپائی پر نہیں بیٹھتی بلکہ اس کے سامنے ادب سے زمین پر بیٹھ جاتی ہے ۔ پتہ نہیں برابر بیٹھنے سے مردوں کی شان میں کونسی گستاخی ہو جاتی ہے ۔ وزیرستان کے مردوں بلکہ چھوٹے لڑکوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مرد عورت سے سپیرئیر ہے ۔ اور مولوی بھی مسجد میں مردوں کو یہی بتاتے ہیں کہ تم اپنی عورتوں کے حاکم ہو ۔ اور یہ کہ اگر انسان کو سجدہ جائز ہوتا تو بیویوں کو اپنی شوہروںوں کو سجدے کرنے کا حکم ہوتا ۔ اور عورت کو کمتر ثابت کرنے کیلئے باقاعدہ دلیلیں پیش کی جاتی ہے ۔ عورت کو کبھی شیطان اور شر و فساد سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ عورتوں کے بارے میں خود ساختہ کہاوتیں بنائی گئی ہے مثلاً یہ کہ عورت مرد کی بائیں جوتے کی حثیت رکھتی ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت پر کبھی اعتبار نہ کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بھی لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ بھائی اور باپ کی بات مان لیا کرو کیونکہ بھائی اور باپ دوبارہ نہیں ملتے ۔ بیوی تو دوسری بھی مل جائے گی ۔
وزیرستان کے تاریخ میں آج تک کسی عورت کو کسی فیصلہ ساز ادارے میں شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ چاہے کوئی جرگہ ہو یا علاقے کی فلاح و بہبود کا کوئی تنظیم ہو حتیٰ کہ گھر کے فیصلوں میں بھی اس کو شامل نہیں کیا جاتا ۔
اگر کوئی مرد اپنی بیوی سے صلاح مشورہ کرتا ہے تو اس کو لوگ بےغیرت سمجھتے ہیں ۔
عورتوں کو عقلی لحاظ سے بھی کمتر سمجھا جاتا ہے ۔ ایک دوست مجھے کہہ رہا تھا کہ عورتیں بےواقوف ہوتی ہیں تو میں نے کہا کہ اگر آپ کو میں بچپن سے لیکر جوانی تک بغیر تعلیم و تربیت کے گھر کے چار دیواری کے اندر بند کرو اور ٹی وی ریڈیو یا باھر کی دنیا کی ایکسپوژر کی ہوا نہ لگنے دو تو آپ سے بڑا بےواقوف اور جاہل شخص کوئی نہ ہوگا ۔
7. جنسی تفریق
جینڈر ڈسکریمینشن :
اگر چہ یہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی یہ مسلہ پایا جاتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔ وزیر ستان میں عورتوں کو پیدائش کے دن سے جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جیسی ہی لڑکی پیدا ہوجاتی ہے تو خاندان والے فوراً منہ لٹکا دیتے ہیں اور لڑکی کی پیدائش پر خوشی کے بجائے خفا ہوجاتے ہیں ۔ لیکن اگر لڑکا پیدا ہوتا ہے تو مبارکبادوں کی دوڑیں لگ جاتی ہے اور ہوائی فائرنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ لڑکے کی پیدائش پر بڑے بڑے دنبے یا بیل زبح کرتے ہیں اور تمام لوگوں میں مٹھائیاں اور خوانائ بانٹ دیتے ہیں لیکن لڑکی کی پیدائش پر مرغی بھی زبحہ نہیں کرتے اور نہ ہی خونائ یا مٹائی تقسیم کرتے ہیں ۔ اس طرح جیب خرچہ بھی لڑکوں کو لڑکیوں کی نسبت زیادہ ملتا ہے ۔ عام تقریبات میں بھی مردوں کو زیادہ پروٹوکول ملتا ہے ۔ اسی طرح لڑکوں کی تعلیم پر بھی لڑکیوں کی نسبت زیادہ خرچہ کیا جاتا ہے ۔ وزیرستان میں والدین صرف بیٹے کی شادی پر دعوت ولیمہ اور دھوم دھام سے فنکشن کا انعقاد کرتے ہیں جبکہ بیٹی کو سادگی سے رخصت کردیا جاتا ہے ۔ وزیرستان میں اتنی جنسی تفریق ہیں کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔
وزیرستان کے مردوں کے لئے مکمل آزادی ہے لیکن عورتوں کے لئے بہت سارے حدود و قیود ہیں ۔ وزیرستان کے مرد حجروں میں خود ہالی ووڈ کی فحش فلمیں دیکھتے ہیں لیکن عورتوں کے لئے ٹی وی پر خبرنامہ بھی حرام اور گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ۔
باپ بیٹوں کو پہلی ترجیح دیتا ہے ۔ لڑکوں کو جو آزادی حاصل ہے لڑکیاں خواب میں بھی اس کا تصور نہیں کر سکتی ۔ بوڑھی خواتین جوان لڑکیوں کو بچپن سے یہ تربیت دیتی ہے کہ کس طرح مردوں کی خدمت کرنی ہے ۔ والدین کا آوارہ لڑکا باھر گھومنے پھرنے کے بعد جیسے ہی گھر میں داخل ہوتا ہے تو ماں فوراً بیٹی کو حکم دیتی ہے کہ آٹھ اور لاڈلے کو چائے بنا کے دو یا روٹی دیدو ۔ بھائی بھی بہن سے اپنی خدمت اپنا حق سمجھتا ہے ۔ حتیٰ کہ بہنیں ان کے جوتے تک پالش کرتی ہیں ۔ لیکن مجال ہے کہ بھائی نے ایک دن بھی اپنی بہن کی خدمت کی ہو ۔ جس وقت لڑکے کرکٹ کھیلتے ہیں اس وقت لڑکیاں پانی کے مٹکے سروں پر رکھ کر پانی لاتی ہیں یا جانوروں کے لئے چارہ لاتی ہیں ۔ پھر بھی سالن میں سارا گوشت پہلے مرد کھا لیتے ہیں ۔ اس میں قصور ان عورتوں کا بھی ہے جو اس تفریق کو اپنا مقدر مان لیتی ہے ۔
8.وزیرستان میں اکثر خواتین کا شوہر سے دور زندگی گزارنا
ساس کے مظالم ؛
جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ وزیرستان میں ابھی بھی مشترکہ خاندان یعنی کمبائنڈ فیملی کا تصور پایا جاتاہے ۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ والدین اس چیز کو بہت مائنڈ کرتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی سے سب کے سامنے کمپنی دے یا اس کو اپنے ساتھ باہر لے کے جائے ۔ دوسرا یہ کہ وزیرستان کے مرد اپنے بیوی بچوں سے دور اکثر روزگار کے سلسلے میں سمندر پار خلیج کے ممالک جیسے قطر ، عرب امارات یا سعودی عرب وغیرہ میں کئ کئ سال گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں اس لئے خواتین زندگی کا بڑا حصہ شوہر کے باھر گزارتی ہیں ۔ چونکہ وزیرستان میں اکثریت گھروں میں انٹرنیٹ تو دور کی بات ہے فون کی سہولت بھی نہیں ہوتی اس لیے مہینوں مہینوں بیوی بچوں کا ان سے رابطہ تک نہیں ہوتا ۔ دوسری طرف ساس بہو کے ساتھ اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتی رہتی ہے ۔ وہ بہو کو اپنی پراپرٹی سمجھتی ہے اور ایسے حکم صادر کرتی ہے جیسے وہ ان کی ذاتی ملازمہ ہو ۔ میں ایسے را راویہ کی مذمت کرتا ہوں ۔
9.فنکشن کے علاوہ عام دنوں میں بناؤ سنگھار پر پابندی :
والدین اور رشتہ دار شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے علاوہ عام دنوں میں لڑکیوں کے بناؤ سنگھار کو بہت مائنڈ کرتے ہیں ۔ کیونکہ کوئی لڑکی اگر ذیادہ صفائی پسند ہو یا بناؤ سنگھار کرتی ہو تو سوسائٹی میں لوگ ان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ کچھ گھروں میں اس کو سخت معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ بوڑھی خواتین لڑکیوں کو ایسا کرنے سے منع بھی کرتی ہے ۔ لڑکیوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے ۔ جن خواتین کے شوہر مر جاتے ہیں وہ بھی سوسائٹی کے دباؤ سے کبھی میک اپ یا فیشن وغیرہ نہیں کر سکتی بصورت دیگر اس پر تہمت لگ سکتا ہے ۔ وزیرستان کی قدامت پسند معاشرے نے عورت کی زندگی کو شکستہ اور اس کے حسن کو ماند کر دیا ہے ۔ عورت کو مٹی سے بنے دیواروں سے لگا دیا ہیں ۔ ان کے زندگی کے شوخ رنگوں اور جلوے کو اندھیروں میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔کھل کر مسکرانے پر پابندی ہیں ۔ اللہ ان بوڑھے قدامت پسندوں سے ان کو نجات دلائیں ۔
10.مزدوری کرانا :
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جن لڑکیوں کو غیرت کے نام پر سکول نہیں بھیجتے انہیں لڑکیوں کو لکڑیاں کاٹنے کے لئے پہاڑوں پر بھیجا جاتاہے ۔ یہ کس قسم کے پشتون روایات ہے کہ سکول اور کالج جانے سے ان قبائلی مشران کی عزت و ناموس میں کمی آجاتی ہے لیکن کھیتوں میں جانوروں کے لئے چارہ لانے کےلئے انہیں خواتین کے جانے سے آپ کے عزت و ناموس پر کوئی سوال نہیں اٹھتا ۔ آپ کے شرم و حیا کے بھی الگ الگ پیمانے ہیں ۔ ایک بات یاد آگئی ۔ میرانشاہ کے قریب چشمہ سربندکی کے قریب بنوں سے تعلق رکھنے والا ایک بزرگ آدمی رہتا تھا ۔ جس کی بیوی ہمارے ہاں ایک سکول میں ٹیچر تھی ۔ اور ان کی ماشاءاللہ 6 بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں ۔ گاؤں کے لوگ اکثر ان کو طعنے دیتے تھے کہ آپ کی بیوی اور بیٹیاں پشتون روایات کے خلاف تعلیم کے لئے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو ایک دن اس آدمی نے تنگ آکر مسجد میں سب گاؤں والوں کی تاریخی کلاس لے لی اور کہا کہ شرم تو تم لوگوں کو انی چاہئے کہ اپنی عورتوں کو کھیتوں میں، پ محنت مزدوری، ندی نالوں سے پانی لانے اور جنگل سے لکڑیاں لانے کے لئے بھیجتے ہیں ۔ اور میری بیوی اور بیٹیاں ایک چاردیواری سے دوسری چاردیواری میں درس و تدریس کے شعبے میں عزت و آرام کی زندگی گزار رہی ہیں ۔ تو سب کے سر جھک گئے اور اس دن کے بعد گاؤں والوں نے دوبارہ اس موضوع پر کبھی بات نہیں کی ۔
11. مردوں کی خدمت گزاری:
ساری صورتحال پر نظر ڈالنے سے بندہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ وزیرستان میں مرد عورتوں کے ساتھ فیوڈل لارڈ یا ڈکٹیٹر کی طرح رویہ اور سلوک رکھتے ہیں ۔ جیسے خواتین ان کی رعایا ہو ۔ اور وہ ان کے مالک و حاکم ۔ وزیرستان کے کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا نے عورتوں کو مردوں کے خدمت اور حکم کی بجاآوری کے لئے تحلیق کیا ہے ۔ اور کوئی عورت اس سے انکار کردے تو سوسائٹی میں اس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔
12.سیاسی حقوق :
پاکستان کے آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ تمام شہریوں کو بلاتفریق برابر سیاسی حقوق حاصل ہونگے۔ لیکن بدقسمتی سے گزشتہ 70 سالوں سے وزیرستان میں عورتوں کو ان کی سیاسی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ۔ وزیرستان کی تاریخ میں کبھی بھی خواتین کسی سیاسی ، قومی یا مذہبی جماعت یا تنظیم کا حصہ نہیں بن سکی ہیں ۔ اور نہ کبھی کسی سیاسی پلیٹ فارم سے کردار ادا کرنے کا موقع دیا گیا ہے ۔ وزیرستان میں کسی خاتون کو بلدیاتی ، صوبائی یا قومی اسمبلی کے لئے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ۔ اگر وزیرستان کے نام پر کوئی ایک یا دو خواتین کوٹہ پر نامزد بھی ہوئی ہے تو وہ پشاور اسلام آباد میں رہنے والیاں ہیں ۔ جس کے آباؤ اجداد کا تعلق وزیرستان سے رہا ہے ۔ الیکشن لڑنا تو دور کی بات ہے ۔ بعض دور دراز علاقوں میں ووٹ ڈالنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ۔
13.گھریلو تشدد :
اگر چہ چہ دنیا کے محتلف ممالک میں عورتوں کو ڈومیسٹک وئیولینس کا سامنا ہوتا ہے لیکن وزیرستان میں یہ مسلہ بھی زیادہ گھمبیر ہے ۔بعض شوہر عورتوں کو معمولی معمولی باتوں پر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔ کچھ شوہر روایتی جاگیر داروں کی طرح راویہ رکھتے ہیں ۔ ہمارے گاؤں میں ایک آدمی نے بیوی کو مار مار کے قتل کیا تھا ۔ حکومت نام کی چیز وہاں پر تو تھی نہیں اس لئے کسی نے کچھ نہیں کہا اور اس آدمی نے دوسری شادی کی ۔
14.خوراک میں غذائیت کی کمی :
وزیرستان کے بیشتر خواتین کو معیاری خوراک اور متوازن غذا میسر نہیں ہے ۔ مر خضرات تو اکثر باھر ہوٹلوں میں یا دوستوں کے ساتھ ثوبت اور دعوتیں اڑاتے رہتے ہیں ۔ لیکن بیچاری خواتین گھروں میں دال ساگ پر گزارا کرتی ہیں ۔ غذا کی کمی کی وجہ سے بہت ساری خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں ۔ غربت اور تنگدستی کے باعث خشک اور تازہ پھل نہیں کھا سکتے ۔
15. غیر معیاری زندگی اور سہولیات کا فقدان :
ویسے تو تیسری دنیا بشمول پاکستان اور پختونخوا میں سٹینڈرڈ لائف بہت کم لوگوں کو نصیب ہے ۔ لیکن وزیرستان میں خواتین کی زندگی قید سے بھی بدتر ہیں ۔ گھروں کی حالت ٹھیک نہیں ۔ ان میں جدید سہولیات کا فقدان ہے ۔ ہماری خواتین موٹر کار ، ٹی وی ، گیس ، بجلی اور ٹیلی فون سے محروم ہیں ۔ گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے ۔ لکڑیوں کو جلا کر کھانا تیار کیا جاتاہے ۔ باتھ روم ، کچن اور بیڈروم پرانے زمانے کے بنے ہوئے ہیں ۔ البتہ مردوں نے اپنے لئے حجروں کو اچھی طرح عمدہ فرنیچر اور قیمتی قالین کے ساتھ سجا دیا ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے خواتین کو یہ سہولیات حاصل نہیں ہیں ۔
صحت کے بھی بےشمار مسائل ہیں ۔ لیڈی ڈاکٹرز کی سخت کمی ہے ۔ خواتین کے لئے اچھے ہسپتال اور سپیشلسٹ ڈاکٹر نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
العرض وزیرستان میں عورتوں کو بےشمار مسائل کا سامنا ہے ۔ جن کے وجوہات میں تعلیم و شعور کی کمی ، غلط توہمات و غلط رسم و رواج ، قدامت پسندی ، قبائلی فرسودہ خیالات و نظریات ، حکومت کی چشم پوشی وغیرہ شامل ہیں ۔
امید ہے اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ اپنے کپیسٹی کے مطابق وزیرستان کے خواتین کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ضرور نبھائیں گے ۔
اپنی کمنٹس اور آرا سے ضرور آگاہ کیجئے ۔
Comments
Post a Comment