دنیا میں پشتون کا مقام بحثیت قوم

#دنیا میں پشتون کا مقام بحثیت قوم ؛
 دنیا میں وہی قومیں ترقی اور سربلندی حاصل کرتی ہے جو اپنے وطن
میں سب سے پہلے امن قائم کرتی ہیں ۔ جہاں بلاتفریق سب لوگوں کی جان و مال،عزت و آبرو مکمل محفوظ رہتی ہیں ۔ پھر امن کے اس ماحول میں پورے قوم کو ترقی کے راه پر گامزن کیا جاتا ہیں ۔ ایسی قوموں کو دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ ترقی کے لیے مرد و زن دونوں کو سو فیصد زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے ۔ دنیا کی تاریخ پر اگر سرسری نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ہر دور کے ترقیافتہ قومیں اور سپر پاور اس دور کے تقاضوں کے مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے زمانے کے سائینس و ٹیکنالوجی سے بہرہ ور تھے ۔ آج بھی یورپ ، امریکہ ، چین ، جاپان ، ملائشیا اور سنگاپور کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کی لیڈرشپ نے سب سے پہلے اپنے عوام کو امن کا ماحول فراہم کیا ۔ کیونکہ امن کے بغیر ترقی کا تصور بھی ناممکن ہے ۔ اب آتے ہیں پشتون قوم کی طرف ۔ پشتون قوم مغل کے دور سے لیکر آج تک امن کے بیچ بیچ میں چند وقفوں کے علاوہ حالت جنگ میں ہیں ۔ نتیجے کے طور پر پختونوں کی نصف سے زیادہ ابادی غیروں کی ڈائریکٹ غلامی میں چلی گئ ۔ جس کی اپنی شناخت بھی ایک لمبے عرصے تک تقریباً ختم ہوگئی ، اور ان علاقوں کو غیروں کی زبان میں مختلف نام دئیے گئے جیسے فرنٹیئر ( سرحد ) فاٹا ( وفاقی علاقہ جات ) بلوچستان میں پشتونوں کے 13 اضلاع ۔ ان علاقوں میں ایک خاص ذہنیت کو پروان چڑھایا گیا ۔ ایک طرف پشتونوں میں جنگی جنونیوں کو پیدا کیا گیا تو دوسری طرف پشتونوں کو سر سید احمد خان کے پیرو کار بنایا گیا ۔ اردو زبان کو پشتون بھی اپنا قومی ، تعلیمی اور دفتری زبان دل و جان سے مان گئے ۔پشتون قوم سے اپنا تاریخ اور جغرافیہ چھین لیا گیا ۔ ہمیں اپنے آبا و اجداد کے تاریخ کے بجائے دوسرے قوموں کا تاریخ پڑھایا گیا ۔ آپ پشتون طالب علموں سے کبھی پوچھ کے دیکھ لیں ۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ علامہ اقبال ، چوہدری رحمت علی ، اغاخان ، سر سید احمد خان ، محمد علی جوہر کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان پر لمبے لمبے مضامین بھی لکھ سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ شیر شاہ سوری ، پیر روشان ، احمد شاہ ابدالی ، میرویس خان ، فقیر ایپی کے بارے میں ایک جملہ نہیں بھول سکتے ۔ ۔ ۔ پشتونوں کا واحد ملک افغانستان تقریباً گزشتہ نصف صدی سے اندرونی اور بیرونی جنگوں سے برسر پیکار ہے ۔ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد سابقہ فاٹا کو ملیامیٹ کیا گیا ۔ پشاور اور پختونخوا کے تمام اضلاع میں دھماکے کروائے گئے ۔ سکولوں کو بموں سے اڑایا گیا ۔ پشتون لیڈرشپ کو چن چن کر مارا گیا ۔ خوف و دہشت کی ایسی فضا قائم کی گئ کہ قوم کی مجموعی ترقی رک گئ ۔ لوگ ہجرت پر مجبور ہوکر در بدر کی ٹھوکریں کھانے لگے ۔ پشتون قوم کی معیشت ، سیاست اور معاشرت تباہ ہوگئ ۔ اور میری نظر میں سب سے بڑا نقصان پشتون معاشرے کی مجموعی اخلاق خراب ہوئی ۔ ہمارے معاشرے میں جھوٹ ، بددیانتی ، ملاوٹ ، دھوکہ ، فراڈ معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے اور قتل و غارتگری میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔ میڈیا پر پختونوں کی ایسی تصویر پیش کی گئی کہ پشتون منہ چھپانے کے قابل نہیں رہے ۔ پنجاب میں رہنے والے پشتونوں پر زمین تنگ کی گئ ۔ دنیا میں ہماری عزت مکمل طور پر ختم ہوگئی ۔ اور یہ سب کچھ خادثاتی طور پر نہیں ہوا بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ سب کچھ کیا گیا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان ایشیا کے لیے درد سر ہے ( کیوں کہ یہ امریکہ کا آلہ کار ہے ) میں کہتا ہو کہ یہ صرف پشتون قوم کے لئے سب سے بڑا درد سر اور برا سامراج ہیں ۔ کیونکہ یہ باقی ایشیائی ممالک کا کچھ نہیں کرسکتا لیکن پشتون قوم کا ستیاناس کر دیا ۔ اس سامراج نے پشتونون کی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی استحصال کیا اور کر رہا ہے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔2007 میں اسلام آباد کے ایک نجی سکول میں میں پڑھا رہا تھا تو ایک فیمیل سٹوڈنٹ نے مجھ سے پوچھا کہ سر کیا آپ پٹھان ہے ؟ پنجاب کے لوگ ہمیں پٹھان کہتے ہیں ۔ تو میں نے کہا کہ ہاں میں پٹھان ہو تو وہ بچی بڑی حیرانگی سے مجھے دیکھنے لگی اور کہا کہ سر آپ زرہ ہٹ کے پٹھان لگتے ہیں ۔ تو میں نے پوچھا کہ زرہ ہٹ کے پٹھان کا کیا مطلب ہوتا ہے تو اس لڑکی نے مجھے کہا کہ سر پٹھان تو وہ ۔۔۔۔۔ ہوتے ہیں ۔ عجیب ہوتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ کھل کر بات کرو تو اس نے کہا کہ پٹھان تو دہشت گرد ہوتے ہیں ، ان پڑھ ہوتے ہیں ۔ چوکیدار ہوتے ہیں یا چوھدریوں کے گھروں میں گھریلو ملازم وغیرہ ، انہوں نے بہت ساری اور باتیں کی جس کو میں یہاں پر بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا ۔ بعد میں مجھے لاہور اور پنجاب کے دوسرے علاقوں میں بھی اس قسم کے منفی تجربہ اور اس قسم صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ۔ٹی وی پر بھی پشتون قوم کی پروفائلنگ کی گئ ۔ ہمارے خلاف سخت منفی پروپیگنڈا کیا گیا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ لوگ ہمیں تیسرے درجے کے شہری بھی ماننے کو تیار نہیں ۔ ایسے پشتون افسروں کو بھی میں جانتا ہوں جو اپنے بچوں کے ساتھ اردو میں بات کرتے ہیں اور اپنی پشتون identity چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ تو یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ پشتونوں کی بہت بڑی اکثریت کے قسمت میں بس یہی لکھا ہے کہ وہ باہر ممالک میں پردیس کی زندگی میں مزدور وں اور غلامی کی زندگی گزاریں گے۔ جو لوگ امارات میں ہیں آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ پشتونوں کے ساتھ لوگ کس قسم کا رویہ رکھتے ہیں ۔ ہمارے پشتون بھائی پنڈی ، لاہور اور کراچی میں کس قسم کے تھرڈ کلاس جابز کرتے ہیں ۔ آپ وہاں جا کے دیکھ لیں ۔ ہم زوال کے آخری حد تک پہنچ چکے ہیں ۔ ہم اپنا عروج دور ہی بھول چکے ہیں ۔ تعلیم و ترقی کے میدان میں ہم دنیا کے باقی اقوام سے کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔ اور اب آخری جملہ یہ کہ ان سب کے باوجود بہت سارے پشتونوں کو ابھی تک یہ احساس بھی سرے سے نہیں ہے کہ واقعی دنیا میں ہمارا وقار بری طرح مجروح ہو چکا ہے اور بحثیت قوم ہم پستی اور زوال کا شکار ہوئے ہیں ۔ پشتون قوم اس پستی اور زوال سے کیسے نکلے گا ۔ اس پر آپ بھی سوچ لے اور میں بھی کالم کے دوسرے حصے میں اس پر پر تفصیلی روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا ۔ ( جاری ہیں ) #سعیدانورداوڑ

Comments

Popular posts from this blog

Government of Pakistan offers dialogue with PTM

جنگ آزادی کے عظیم ہیرو اور بانی پشتونستان حاجی مرزالی خان المعروف فقیر ایپی

وزیرستان کے موجودہ حالات خصوصاً تعلیمی حالت